پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

عُمر کی ساٹھویں منزل پر پہنچ کر یہ خیال آیا کہ اپنے مختصر حالاتِ زندگی کی صدا بندی کا فریضہ انجام دوں ۔ اس کا مقصد اپنی شخصیت کا اُجاگر کرنا نہیں ہے ۔ اگر ہندوستان سے ہجرت نہ کرتا تو مجھے اس کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ اب ہجرت کے بعد ہر مہاجر اس نوزائیدہ ملک میں اپنی آئندہ نسلوں کا مورثِ اعلیٰ بن چکا ہے ۔ اور اُس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو اپنے ماضی سے باخبر رکھے ۔ آج جو حالات بیان ہوں گے سو دو سو سال بعد وہ اہم تاریخی دستاویز بن جائینگے ۔ تو جناب ! نئے آشیانے کی طرح نو ڈالے ہوئے پورے تیس سال گزر چکے ہیں ۔ یہ پورا زمانہ آشیاں بندی اور کش مکش ِ زندگی کی نذر ہو گیا ۔ پاکستان میں نئی ملازمت محکمہ ٔ تعلیم میں ۹؍ فروری ۱۹۴۹ء میں شروع کی اور ۰۲؍ مئی ۱۹۷۵ء کو اٹھاون سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا ۔ کون بتائے کہ بیچ کے وقت کو کس کی نظر کھا گئی ۔ وقت کی تیز رفتاری ۔ خدا کی پناہ ! طوفان سر سے گزرتے رہے اور خبر نہ ہوئی ۔ جوشؔ ملیح آبادی کا یہ شعر اکثر بیساختہ زبان پر آتا ہے کہ

جمنے نہیں پاتی ہے کسی شے پہ نگاہ

اےقافلۂ حیات آہستہ گزر !

اب میری عمر برا ؔعظم ایشیا کی اوسط عمر سے تجاوز کر چکی ہے ۔ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے کوئی کان میں کہہ رہا ہو کہ جو کچھ کہنا ہے کہہ لو پھر؎’’فرصت عرضِ حال ہو کہ نہ ہو‘‘ اپنی ہنگامہ پرور زندگی کے ساٹھ سالہ واقعات کو سمیٹنے کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے۔ صرف جستہ جستہ حالات پر اکتفا کروں گا۔

ہمالیہ کی ترائی میںرو ہیلکھنڈ کے مشہور جنگجو سردار نجیب الد ولہ کے قلعے سے پانچ میل کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی تھی جو ’’میمن سادات‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ یہی وہ بستی ہے جہاں میں نے آنکھ کھولی۔ یہاں ہمارے مورثِ اعلیٰ فضل علی سادات باہرہ کی ایک بستی بہیڑہ سادات ضلع مظفر نگر سے آکرآباد ہوگئے تھے۔ نادر شاہ ملک کو کو لوٹ کھسوٹ کر واپس جاچکا تھا۔ شاہ جہاں کا تختِ طائوس اور مغلیہ خزانے کا مشہور کوہِ نور ہیرا لال قلعے کو خیرباد کہہ چکے تھے اور مالِ غنیمت میں اس کے ساتھ تھے۔ اکبر اور اورنگ زیب جیسے بہادر شہنشاہوں کا جانشین محمد شاہ رنگیلا صرف نام کا شہنشاہ تھا۔ سادات کا طوطی بول رہا تھا۔ بادشاہ گر کہلا تے تھے۔ رو ہیلکنڈھ پر نجیب آباد سے سہارنپور تک نجیب الد ولہ کا راج تھا۔ ہمارے مورثِ اعلیٰ فضلِ علی بہیڑہ سے اپنے ساتھ صرف دو گھڑے لیکر آئے تھے ۔لیکن میمن آتے ہی نجیب الد ولہ کے ذریعے چھپرپھاڑ کر دولت ملی۔ مغلوں کے طرز پر ایک شاندار قلعہ اور قلعے سے باہر دو محل تعمیر کرائے جو چھوٹی حویلی اور بڑی حویلی کے نام سے مشہور تھے۔ زمیندار اور فوجداری فیصلوں کے لئے ایک دیوان خانہ بھی بنوایا جو محرم میں عزاخانے میں تبدیل ہوجاتا تھا۔ لبِ گنگ تک پورا علاقہ تحویل میں آگیا بستی ریاست میں بدل گئی اور اس قلعے کا رئیس بستی کا سربراہ کہلانے لگا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں جب نجیب الد ولہ نے روہیلکنڈھ کے علاقہ بجنور پر قبضہ کیا تو سید احمد خاں بجنور کے صدرامین تھے اور انگریزوں کا تسلط بحال کرنے کے سلسلے میں سراغرسانی کی خدمات انجام دے رہے تھے جس کے صِلے میں انگریزوں نے انہیں’’سر‘‘ کا خطاب دیا اور جج بنادیا۔ یہی وہ سر سید تھے جنہوں نے اپنی کتاب سرکشئ بجنور میں ہمارے نانا جیون علی کا تذکرہ کیا ہے۔ اُنہوں نے انگریزوں کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی ہے کہ ’’جیون علی رئیس میمن سادات سے خطرہ ہے وہ ہر وقت ایک ہزار مسلح سپاہی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ محرم بھی قریب ہے ہوسکتا ہے کہ کوئی فساد رونما ہو‘‘۔ اس اطلاع کا نتیجہ یہ نکلا کہ لارڈ کنینگ وائسرائے نے جیون علی کو گولی مارنے کا حکم دیا اور دہلی دربار میں طلب کیا۔ وہ سب سے رخصت ہو کر گیروانی لباس میں دہلی دربار پہنچے۔ گولی مارنے کا حکم منسوخ کردیا گیا ان کی ریاست بحقِ سرکار ضبط ہوگئی۔ گزارے کے لیے کچھ گائوں چھوڑ دیئے جو ہمارے آبائو اجداد بیچ بیچ کر کھا گئے۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ریاست ختم ہوچکی تھی۔ صرف بستی کی سربراہی کا اعزاز باقی تھا۔ قلعے کے سربراہ کی مرضی کے بغیر بستی میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ سر براہ کی عدم موجودگی میں شادیاں بھی ملتوی ہو جاتی تھیں اسکی اجازت کے بغیر کوئی پختہ مکان نہیں بنوا سکتا تھا۔ آج تک بستی اسی حالت پر قائم ہے اور اسی لٹی ہوئی ریاست کے سربراہ ہمارے چچا علی اخترہیں جن کا سب سے بڑا لڑ کا سید سبط حیدر زیدی پاکستان میں ہے اور KDAمیں سپرنٹنڈنگ انجینئر ہے۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی مصطفیٰ چچا علی اختر کا دستِ راست ہے او ریہ دونوں ابھی تک اس شاہی محل میں براجمان ہیں۔ باقی سب وطن کو خیرباد کہہ کے پاکستان آگئے ریاست میمن کے تاریخی ہیرو جیون علی کی سب سے بڑی لڑکی کنیز زینب ہمارے دادا اعجاز الحسن کو منسوب تھیں اور اس طرح وہ ہماری دادی تھیں اور جیون علی ہمارے نانا۔ ہماری دادی نے آواز بہت پاٹ دار پائی تھی۔ جب وہ محرم میں زنانے عزاخانے میں مرثیہ پڑھتی تھیں تو ان کی آواز محل کی چار دیواری عبور کرکے دور تک فضا میں پھیل جاتی تھی… میں نے اپنے کاشتکار نتھو چمار کو والد سے کہتے سناہے کہ ’’اج جمانے کو عورتیں تو چیںچیں کریں ہیں۔ آوْا ج تو ہماری بی بی کی تھی۔ ہم پاندہوئی پارسن لیا کرتے تھے‘‘۔ معاف کیجئے گا میں نے پدرم سلطان بود والی کہانی شروع کردی۔ یہ تو بڑی لمبی کہانی ہے۔ اب پھر کوشش کرتا ہوں کہ آپ بیتی تک محدود رہوں۔

ہا ںتو سنیئے خالص آپ بیتی :

میں 21مئی 1917ء کو میمن میں پیدا ہوا۔ یہ وہ تاریخ پیدائش ہے جو والد نے اسکول میں داخلہ دلاتے وقت فارم میں لکھی تھی۔ ہمارے خاندانی کا غذات میں میری اصل تاریخ پیدائش کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میری پیدائش کا کسی نے نوٹس نہیں لیا کیونکہ مجھ سے پہلے میرے تیرہ بہن بھائی مرچکے تھے۔ میرے زندہ رہنے کی کسی کو شاید امید نہیں تھی۔ سنتا ہوں کہ ہمارے زمانے کے مکان پر جنوں کا قبضہ تھا۔وہ کسی کو چھوڑتے ہی نہیں تھے۔ آخری حملہ میری والدہ پر ہوا ۔اُن کے تکیئے کے نیچے سے روزانہ علی الصباح دو روپے کے دو نئے سکے برآمد ہوتے تھے۔ والد صاحب کو چاہئے تھا کہ ہونے دیتے لیکن وہ روپے مکان سے باہر لیجاکر دفن کردیتے تھے۔ جن ناراض ہوگئے والدہ کو بخار ٹھہر گیا اور میں صرف چار سال کا تھا کہ اُن کا انتقال ہوگیا۔ میں آٹھ سال کی عمر تک اسی آسیب زدہ مکان میں اپنے ننیھال کے زیرِ سایہ پرورش پاتا رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ والدہ کی جان لینے کے بعدجنوں کا انتقامی جذبہ سرد پڑچکا تھا اور وہ لوگ نہ صر ف میرے زندہ رہنے پر رضا مند تھے بلکہ میری نگرانی بھی کررہے تھے۔ کیونکہ اس مکان کے بالا خانے سے جاہل عورتیں فارسی بولتی ہوئی اتریں۔ اُن کا جسم اینٹھ گیا چوٹی کھڑی ہوگئی اور قبل اس کے کہ کوئی تعویز اثر کرے یا کوئی فلیتہ سنگھانے والا آئے ان کی آنکھیں پتھراگئیں اور وہ مرگئیں۔ میں دن رات اسی بالا خانے پر کھیلتا تھا جہاں سے پرندے بھی کتراکر پرواز کرتے تھے۔ بہر حال مجھے زندہ رہنا تھا اور میں زندہ رہا۔آٹھ سال کی عمر میں میں شاہی محل میں آکر رہنے لگا والد کے ساتھ۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے مزدور ہمارے کسان اور ہمارے یہاں روٹیاں توڑنے والے لوگ ہم لوگوں سے بہتر لباس پہنتے ہیں اور ہم سے اچھی غذا کھاتے تھے۔ ریاست پر جھاڑو پھرچکی تھی۔ اس شاندار محل میں ایک چینی کی قاب بھی نظر نہ آئی جس سے یہ ثبوت ملتا کے یہ کبھی دار الا مارہ ہوگا۔ جب کبھی اپنے دوست اختر عباس سے جو رشتے میں ہمارے چچا اور ہم رشتے میں اُنکے ماموں بھی ہوتے تھے۔ استفسار کیا کہ بھئ خدا کے لئے کوئی چیز تو دکھائو جس سے پتہ چلے کہ ہم باون گائوں کے راجہ اور اس بستی کے رئیس تھے تو وہ ہمارے اصرار پر ایک رتھ کے ٹوٹے ہوئے ڈھانچے کی طرف اشارہ کرتے تھے جو دربار کی ایک ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے بے حس وحرکت کھڑا تھا۔ کبھی کبھی جوش میں آکر رتھ کا گھنٹہ بھی دکھاتے تھے جو تہہ خانے کے ایک بڑے بکس میں محفوظ تھا۔ اس گھنٹے نے خدا جانے کب سے بجنا بند کردیا تھا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ انہو ںنے اُسی تہہ خانے کے ایک تاریک گوشے میں رکھے ہوئے ایک صندوق سے ٹین کی لمبی لمبی نلکیاں اس طرح پراسرار انداز سے نکالیں جس طرح سپیرا اپنی ٹوکری سے سانپ برآمد کرتا ہے۔ اُن نلکیوں کو کھولا گیا تو اس میں لمبے چوڑے فرمان ہائے شاہی تھے جس پر شاہ عالم ،فرخ سید محمد شاہ وغیرہ مغل بادشاہوں کی مہریں تھیں۔ یہ سب فرمان بہترین فارسی خطاطی کا نمونہ ہیں۔ ایک دفعہ باتوں باتوں میں دھندے ھوگئے اور اُس سبز گھوڑے کا ذکر کرنے لگے جو اُن کی پیدائش سے سو سوا سو سال پہلے مر چکا تھا کہنے لگے اسے ایک گائوں دیکر خریدا تھا۔ ایک اور چمڑے کا پٹارہ بھی اُن کے توسط سے دیکھنے میں آیا جس میں راجہ مہاراجہ ،نوابوں اور امیروں کے خطوط تھے اپنے دوست کی اس وار فتگی اور ذہنی بیچار گی پر مجھے ہنسی بھی آتی تھی اور غصہ بھی او رکبھی کبھی مرزا غالبؔ کی یاد بھی اس شعر کے سلسلے میں کہ چند تصویرِ بتاں چند حسینوں کے خطوط بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا شاہی محل میں ایک ڈولی بھی تھی جس میں بستی کی ہر دلُہن اپنے گھر تک سفر کرتی تھی اور آگے آگے انگریزی باجے والے یہ گیت لہک لہک کر گاتے تھے کہ

ڈولی لے چل آہستہ کہار کے …شادی کے بعد ڈولی محل میں واپس آجاتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست تھوڑی بہت باقی رہتی تو ہم اتنے خراب وخوارنہ ہوتے ۔ انسان کھاپی کر مر رہے تو غم نہیں ہوتا لیکن رئیس کنگال ہو جاتا ہے تو فاقہ مستی کے باوجود اُس کے لاشعور میں ریاست او رعیش پرستی کے وہ گہرے نقوش باقی رہ جاتے ہیں جو اُس کو پوری زندگی ایک مسلسل عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ہماری حالت یہی ہوئی ماضی کی بھیک ، قصرِ رئیسانہ رہ گیا شاہی نہیں رہی دلِ شاہانہ رہ گیا اپنے مزاج سے مجبور ہوں۔ کہاں سے کہاں نکل گیا۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ آٹھ برس ماضی کے تجزیئے میں گزر گئے۔ اب پڑھنے کا زمانہ آیا تو اقتصادی حالات اور بستی کا ماحول سازگار نہ تھا۔ بستی میں لے دے کے ایک سرکاری مدرسہ تھا جس کا مدرس پیشے کے لحاظ سے منشی کم اور قصاب زیادہ تھا والدین اپنے بچوں کو اُس کے حوالے کردیتے تھے اور فخریہ انداز میں کہتے تھے’’ منشی جی! لونڈا پڑھا بھلا یا مرا بھلا۔ بس گوشت تمہارا اور ہڈیاں ہماری‘‘… یہ فری لائسنس ملنے کے بعد منشی بائولا تو تھا نہیں جوپڑھاتا بچوں سے اپنی غربت کا انتقام اور اخراجاتِ قیام وطعام لیتا تھا۔ مدرسہ چھ گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ چھ کے چھ گھنٹے پورے بائیس لونڈے مرغا بنے رہتے تھے اور شہتوت کی بھیگی ہوئی قمچیں دیکھ کر اپنے مستقبل پر روتے اور کلمۂ شہادت زبان پر جاری رکھتے تھے۔ ہمارے تائے زاد بھائی دوناریل کے گولے کُرتے کی جیبوں میں رکھ کر جایا کرتے تھے اور جب کان پکڑے پکڑے پیرد کھنے لگتے تھے اور دورانِ خون چہرے کی طرف تیز ہونے لگتا تھا تو دونوں جیبوں کو بڑے فنکارانہ انداز میں ھٹسکا لگا کر ناریل کے گولے اس طرح نیچے لڑھکا دیا کرتے تھے کہ منشی کی دری تک پہنچ جائیں۔ منشی جی ناریل کے گولے دیکھتے ہی ارشاد فرماتے تھے ’’گھسیٹا کان چھوڑدو‘‘… اور مسٹر گھسیٹا کی توبہ قبول ہوجاتی تھی۔ منشی آئے تھے Expansion of Educationکے لئے لیکن انہوں نے Eradication of Educationکردیا۔ جلا ہوں کے لونڈے اپنی ریڑھ کی ہڈیاں تڑ واکر مدرسہ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے۔

بستی کی حالت یہ تھی کہ رات دن بھوت پریت جنوں اور پریوں کے قصے بیان ہوتے تھے۔ چھلاوہ تو خیر میمن کا ہی باشندہ معلوم ہوتا تھا۔ اندھیرا ہوا او رہر مکان میں جن داخل ہوگئے۔ بچوں کا ڈر کے مارے پیشاب نکلتا تھا۔ ہمارے محل کے گردو نواح میں نورا کا تسلط تھا کسی بچے کو بخار ہوا اور بڑی بوڑھیوں نے آواز لگائی’’اری نورا اتارو‘‘ فوراً ایک اُپلے پر گھی چپڑی روٹی اور ساگ پات رکھ کر اور چارو ں طرف دھاگے لپیٹ کر لوگ کیکر کے پیڑکے نیچے رکھ آئے۔ پتہ نہیں اس ٹوٹکے سے کتنوں کو فائدہ ہوا اور کتنے نورا کی نذر ہوگئے۔ ملیریا اور فلو کاکوئی نام بھی نہیں جانتا تھا۔ کھانا مٹی کی ہانڈیوں میں پکایا اور کھایا جاتا تھا۔ ایک مکسچر پیتے تھے جسکو وہ چائے کہتے تھے۔ صبح کو لوگ تانبے کے بادیئے میں گڑ کے قوام میں پکی ہوئی چائے بھر کر بگڑکی روٹی چُور لیتے تھے۔ درباروں میں حقے چلتے تھے۔ گلیوں میں کتے گھومتے تھے اور کبھی کبھار بھیڑئے بھی۔ درختوں سے کاٹے ہوئے ڈنڈوں سے جن کا اگلا سرا مٹرا ہوا ہوتا تھا لونڈے ہاکی کھیلتے تھے۔ بانس کی جڑ چھیل کر گیند بنالیتے تھے۔ کبڈی۔آتی پاتی۔ کان پتہ۔ جما شاہی کوڑا اور اکل دکل بچوں کے محبوب مشغلے تھے۔

میرے والد سید محمد صادق مرحوم ہمارے خاندان کے پہلے میٹریکولیٹ تھے۔ انہوں نے 1907ء میں کئی سال فیل ہونے کے بعد میٹرک پاس کیا تھا۔ اُن کا انگریزی اور اردو خط لاجواب تھا۔ میرا خود انگریزی اور اردو خط خاصا اچھا ہے لیکن اُن کے مقابلے میں ایسا لگتا ہے کہ چیونٹے کو روشنائی میں ڈوبو کر کاغذ پر دوڑ ایاگیا ہے۔ انہوں نے خود مجھے پڑھانا شروع کردیا اور میمن کے ماحول سے بچا کرریاست رامپور کے ہائی اسکول میں ساتویں درجے میں داخل کرایا۔ ہم تین ساتھی تھے، آقا حسنین ،آفتاب رضا اور میں۔ ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ زوار حسین ہمارے باورچی ہونے کے علاوہ ہمارے گارجین بھی تھے۔ والد نے اتنا پڑھا دیا تھا کہ ساتویں درجے میں میں آسانی سے فرسٹ آگیا۔ پھر رامپور چھوڑنا پڑا کیونکہ ہمارے ایک ساتھی آفتاب رضا پڑھنے سے اکھڑ گئے تھے۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ ارتھمیٹک ،الجبرے، جیومیٹری اور جغرافیئے کو نصاب سے خارج کردیا جائے۔ انگریزی میں Jackalsکے پہلے سبق کے پہلے جملے سے کبھی آگے نہ بڑھے۔ تاریخ میں بادشاہوں کے نام ان کے ذہن میں خلط ملط ہوجاتے تھے۔ امتحان میں پوری کاپی میں صرف ایک جملہ لکھ کر چلے آئے کہ ’’التمش نے محمد غوری کی ماتحتی میں 1210ء سے 1536ء تک حکومت کی یعنی تین سو برس… آٹھویں درجے میں ہم دوساتھیوں نے نجیب آباد کے سرکاری ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔سید آلِ احمد سابق رئیس نجیب آباد نے اپنے شاندار مکان میں ایک کمرہ رہائش کے لیے دیدیا۔ آٹھویں کے بعد نجیب آباد کو بھی چھوڑنا پڑا کیونکہ اس مکان میں طوائفوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ہار مونیم اور طبلوں کی آوازوں میں کون پڑھتا ۔ آلِ حسن صاحب بھی اپنے مکان سے برآمد ہوتے تھے گاتے اور گنگناتے ہوئے۔ اُن کی داشتائیں سرلی،چھٹنکی اور رجی ہمارے سروں پر سوار رہتی تھیں۔ نویں درجے میں ہم دونوں نے امروہہ گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور میں اپنے ساتھی سے الگ ہو کر ہوسٹل میں رہنے لگا۔ ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ بی۔ اے کا امتحان دے رہے تھے وہ مجھ سے اردو پڑھتے تھے خصوصاً ’’غالب ؔ،انیسؔ اور دبیر ؔوغیرہ کا کلام۔ گورنمنٹ ہائی اسکول امروہہ سے میں نے میٹرک 1932ء میں پاس کیا۔ اُس وقت میری عمر مشکل سے پندرہ سال تھی۔ اچانک احساس ہوا کہ میری اہمیت بہت بڑھ چکی ہے اور درباروں میں میری قابلیت کے تذکرے ہونے لگے ہیں۔ اس وقت ہمارے خاندان کے بزرگ اور بستی کے سربراہ تائے اللہ بچائے تھے جن کے قریب سے گزرنے کی ہمت بھی کبھی مجھے نہیں ہوتی تھی اُن کی لڑکی اُم الحسنین سے میری منگنی کردی گئی۔ لڑکی انتہائی حسین و جمیل تھی ۔ میری شخصیت کو چار چاند لگ گئے لیکن پندرہ سال کی عمر میں مجھے شادی یا منگنی کا ذرہ برابر احساس نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں منگنی کے بعد بات کرتے ہوئے شرمانے لگا اور درباروں کے ہجوم سے کترانے لگا۔ جب میں نے میٹرک کرلیا تو داخلے کا سوال پیدا ہوا والد نے نمازِ فجر کے بعد اپنی جائے نماز پر انڈیا کا نقشہ کھول کر رکھ لیا اور غالباً ہر شہر پر اُنگلی رکھ کر استخارہ کیا۔ کسی شہر کے لئے استخارہ نہ آیا۔ آیا تو ریاست بھرت پور کے لئے آیا ۔ابا فوراً مجھے لے کر بھرت پور روانہ ہوگئے۔ گوالیار پہنچ کر معلوم ہوا کہ کالج تو بہت بڑی بات ہے بھرت پور میں تواسکول تک نہیں ہے۔ وہاں سے غم وغصہ کی حالت میں ہم سیدھے لکھنؤ روانہ ہوئے۔ دراصل میں خود لکھنؤ داخلہ لینا چاہتا تھا۔ لکھنؤ پہنچ کر شیعہ کالج میں داخلہ لیا۔ ایشیا کا بلند ترین دروازہ ’’رومی گیٹ‘‘ جس کو آصف الد ولہ نے تعمیر کرایا تھا دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ اسکے آثار اتنے وسیع وعریض تھے کہ اُس کے اندر بنے ہوئے کمروں میں شیعہ کالج کا ہوسٹل تھا۔ اس پُر فضا مقام اور جنت ارضی کو کون چھوڑتا۔ میں نے ہوسٹل میں قیام کیا۔ اور ایک ہفتے کے بعد ہی اپنی صلاحتیوں کی بنیاد پر ہوسٹل کا جنرل مانیٹر اور میس مانیٹر منتخب ہوگیا۔ قورمہ اور دُھلی ہوئی ماش کی دال روہیلکنڈھ کی محبوب غذاہے، میں نے پہلے ہی دن یہ دونوں چیزیں پکوائیں۔ معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد ہوسٹل میں اسٹرائک ہوگیا۔ لکھنؤ والے ارہر کی دال اور چاول، روٹی اور قورمہ پسند کرتے ہیں۔ میں نے میٹنگ میں لڑکوں سے معافی مانگ لی اور اگلے روز سے کھانے کا Menuبدل دیا۔ ہوسٹل میں باجماعت نماز ہوتی تھی اور مولوی جعفر حسین صاحب ہوسٹل ہی میں مقیم تھے۔ جب وہ پیش امام کی حیثیت سے نیت نماز باندھ لیتے تھے۔ تو ہم لوگ اپنی صفوں میں نیت باندھ کر اللہ اکبراللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے تھے اور پھر سب مولانا کے پیچھے سے غائب ہو جاتے تھے۔ اور دور جاکر باتوں میں مشغول ہوجاتے تھے سلام کے وقت ہم لوگ آکر صفیں باندھ لیتے تھے اور مولانا کے ساتھ بہ آواز ِبلند صلواۃ پڑ ھ کر نماز تمام کرتے تھے۔ مولانا اس حرکت سے بے خبر نہ تھے ایک دن اپنا رجسٹر اٹھا کر سب کے نام کے سامنے ’’غ‘‘ بنا دیا یعنی غیر حاضر امتحان کے نزدیک ہم لوگوں نے مولانا کے کمرے کا تالا کھولکر وہ رجسٹر نکالا اور دریائے گومتی میں پھینک دیا۔ نوبت یہ آئی کہ مولانا نے راتوں رات ہم سے نیا رجسٹر تیار کرایا اور اس نئے رجسٹر میں ہم نے سب کے نام کے سامنے ’’ج‘‘ لکھدیا یعنی باجماعت نماز پڑھی۔ تنہا نماز ادا کرنے کا نشان’’ف‘‘ تھا۔ کالج میں ہمارے اردو کے اُستاد مولانا بے خود موہانی تھے جنکی قابلیت کا لوہا شمالی ہند ستان کے تمام اساتذہ کرام مانتے تھے۔ جب ان کا پیریڈ آتا تھا تو کلاس روم کے دروازے بند ہو جاتے تھے اور مولانا عالم ِبے خودی میں ترنم کے ساتھ غزلیں سُنایا کرتے تھے ۔نصاب پرانہوں نے کبھی گفتگو نہیں کی لیکن اردو اور فارسی اساتذہ کا کلام ہمیں ازبر ہوگیا ۔نصاب اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا تھا۔ جس شاگردسے محبت رکھتے تھے اس کے سرپر ایک ٹیپ مارتے تھے اور کوئی نہ کوئی خطاب دیتے تھے۔ مجھے انہوں نے میمن سنگھ کا خطاب عنائیت فرمایا تھا میں نے ایک دن ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ مولانا بیسویں صدی کے شاعر اقبالؔ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ غصے سے سرخ ہوگیا ان کا چہرہ۔ میرے سرپر ٹیپ مار کر کہا کہ ’’میمن سنگھ! تجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ شاعر نہیں ہے۔ ایسا فلسفی ہے کہ جو وزن اور بحرسے آشنا ہے اوراپنے خیالات نظم کر لیتا ہے۔ اسکی شاعری بھی کوئی شاعری ہے۔ مرکے چھوڑوں گا۔ کرکے چھوڑوں گا۔ غزل محبوب سے لاٹھی ڈنڈے کا نام نہیں ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ میں خاصی اچھی غزل کہہ لیتا تھا لکھنؤ میں شاید ہی کوئی ایسا مشاعرہ ہو جس میں شرکت کا شرف نہ حاصل ہو، کلام اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ اساتذہ سے خراجِ تحسین وصول کرلیتا تھا۔ میری عمر سولہ سال کی تھی کہ کالج میں میری نظموں کی شہرت ہوگئی اور لکھنؤ جیسے شہر کے لڑکوں نے اتفاقِ رائے کے ساتھ مجھے شیعہ کالج میگزین کا سب ایڈیٹر منتخب کیا اس میگزین کے ایڈیٹر پروفیسر بے خود موہانی تھے۔ 1934ء میں انٹر پاس کرنے کے بعد شیعہ کالج کو الوداع کہا اور لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہ داخلہ میں نے اپنے وطن سے فرار ہونے کے بعد لیا تھا۔ خاندان والوں نے بغیر مجھ سے پوچھے بغیر یہ ریزولیشن پاس کرلیا کہ میری تعلیم پر مہر ِاختتام ثبت کردی جائے اور مجھے محکمۂ نہر میں امین لگوادیا جائے۔ میرے کانوں میں یہ بھنک پڑی تو میں نے ایک خط چچا ضیغم مرحوم کو لکھا کہ وہ مجھے چالیس روپے بھیج دیں تاکہ میں لکھنؤ تک پہنچ کر اپنی تعلیم جاری رکھنے کا انتظام کرسکوں۔ انہوں نے خط پہنچتے ہی مجھے چالیس روپئے بھیج دئیے اور میں خاموشی کے ساتھ غائب ہو کر لکھنؤ پہنچ گیا۔ منصوبہ راستے میں تیار کرچکا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھا یونیورسٹی پہنچا اور اپنا بستر اور سوٹ کیس Canning cottageکے پرنسپل Smithکے بنگلے کے سامنے رکھ کر تانگے والے کو رخصت کردیا۔ اندر ایک پرچہ بھیج دیا کہ میں ایک طالبِ علم ہوں۔ میرے پاس نہ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے پیسے ہیں اور نہ قیام وطعام کا کوئی بندوبست جب تک آپ خود کوئی انتظام نہیں کرتے میں خود اور میرا سامان آپ کے گیٹ پر رہیں گے۔ Smithصاحب جھنجھلا کر باہر برآمد ہوئے اور کہنے لگے کہ یونیورسٹی نے کنگال لوگوں کی تعلیم کے لئے قانون نہیں بنایا۔ میں نے جواب دیا کہ پھر آپ کی یونیورسٹی تعلقداروں کی یونیورسٹی ہے عوام کی درسگاہ نہیں ہے۔ اس یونیورسٹی کو بند کردیجئے کیونکہ اس نے عوام پر علم کے دروازے بند کردیئے ہیں۔ اس جھگڑے میں Smithصاحب کی میم آگئی اور اس نے Smithصاحب کے کان میں کچھ کہا وہ اندر گئے اور پھر کچھ دیر بعد باہر آکر مجھے ایک خط دیا ور ہدائیت کی Hewet Hostel کے وارڈن کے پاس چلا جائوں۔ ایک چپراسی نے میرا سامان اٹھایا ۔ ہیوٹ ہوسٹل کے وارڈن نے خط پڑھتے ہی فوراً مجھے ایک کمرہ دیا جو نہایت آراستہ و پیراستہ تھا۔ ایک گھنٹہ کے بعد نہایت اچھا کھانا کمرے کی میز پر لگایا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک مہینے تک ہمارے قیام وطعام کے اخراجات یونیورسٹی برداشت کرے گی۔ دوروز کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا۔ پوری فیس معاف کردی گئی۔ اور ایک ماہ کی شاہی مہمان نوازی کے بعد ہم نے ڈالی گنج میں مکان لے لیا جس میں شیخ جی ،میں اور بھائی ممتاز حیدر اور دو صاحبان اور رہنے لگے۔ حب دار ہمارا کھانا پکاتے تھے۔ ہرروز عید اور ہررات شب برات تھی۔ بھائی ممتاز حیدر ہمارے گارجین تھے اور ایسے گارجین تھے کہ بندر اور بلیوں کا قصہ یا دآتا تھا۔ وہ منوں مٹھائی ہمارے ذریعے سے ہضم کرگئے اور ہم منوں مٹھائی ان کے ساتھ سازشوں میں شریک ہو کر کھاگئے۔ ہم لوگوں نے ڈاکٹر یوسف جیسا شکار اس مکان میں پھانس رکھا تھا۔قصہ بہت طویل ہے لہٰذا چھوڑتا ہوں۔ 1936ء میں بی۔ اے 1937ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی۔ اے آنرز پاس کیا موسم ِگرما کی تعطیلات میں اور محرم میں میمن آتے تھے۔ ہنگامہ خیزیوں سے اس قدر دلچسپی تھی کہ ’’انجمن حسینیہ‘‘ بناکر بستی میں عزاداری کے پورے نظام کو سرے سے بدل ڈالا۔ مجلس ختم ہونے کے بعد ڈھول تاشوں پر ہمارے بزرگ ایک دوسرے کا کرتا پکڑ کر ماتم کیا کرتے تھے۔ ’’یا حسینؑ یاحسینؑ‘‘ ان کی زبان پر ہوتا تھا۔ ایک ہاتھ سے تاشوںکی گت پر جھک جھک کر ماتم کرتے تھے جو آدھ گھنٹے کے بعد ختم ہوجاتا تھا میں نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ تقریباً ایک سوبستی کے نوجوانوں کو منظم کیا اور حلقہ بناکر نوحوں کی دھن پر دونوں ہاتھوں سے ماتم کرنا سکھایا۔ نوحہ اور ماتم ہم آہنگ ہوتے تھے تاشوں کاکوئی کام نہ تھا۔ پُرانے نوحوں کی دھنیں ختم ہوگئیں اور ان کی جگہ نئی دھنوں نے لے لی۔ بزرگوں نے مخالفت کی جو اس حدتک پہنچی کہ ہمیں ڈہول تاشے پھوڑنے پڑے رفتہ رفتہ بزرگوں نے بھی ہمارے ساتھ Adjustکرلیا اور یہ نیا ماتم نئی دھنیں اور نئے نوحے اس قدر مقبول ہوئے کہ دور دور سے لوگ صرف ہماری انجمن کے ماتمی دستے کا ماتم دیکھنے اور نوحے سننے کے لئے آنے لگے۔ مراداآباد ،رامپور،بجنور اور سہارنپور سے ماتمی دستے کے دعوت نامے آنے لگے۔ سال کی ایک نو چندی جمعرات کو ہم حضرت علیؑ کی درگا ہ جوگی پورے میں انتہائی اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ ہمارے کیمپ کے ساتھ راشن اور منتظمین کے تین کیمپ ہوتے تھے۔ ہمارے نوحوں کی شہرت سنکر بیس بائیس یوپی کی انجمنیں اپنے اپنے ماتمی دستوں کے ساتھ شریک ہونے لگیں۔ نوحے میں زیادہ تر خودہی کہتا اور خودہی پڑھتا تھا۔ لکھنؤ میں نجم ؔآفندی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ کبھی میں استاد کے نوحے او رکبھی اپنے نوحے پڑھا کرتا تھا۔ آقا حسین صاحب نے اسی سلسلے میں ایک شعر بھی کہہ ڈالا تھا زوروں پر نہ ہو کیونکر اس سال کی نوچندی شاگرد ہے میمنوی اُستاد ہے آفندی موسیقی کا شوق میں اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوا تھا۔ لکھنؤ میں موسیقی کے کالج میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا تھا لیکن اقتصادی حالات نے پیروں میں زنجیر ڈال دی تھی۔ میرے نوحے اور میری Setکی ہوئی نوحوں کی دھنیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر یوپی کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پہنچ گئیں۔ ایک دفعہ رامپور کے بازار میں ایک دکان پر کھڑا تھا مجھے یہ سُن کر حیرت ہوئی کہ قریب ہی کسی مکان میں میرا نوحہ میرے ہی طرز پر پڑھا جارہا ہے۔ یہ نوحہ میں نے مشکل سے ایک ماہ قبل کہا اور پڑھا تھا۔ میرے نوحے اب بھی یوپی کے چند شہروں میں تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ الٰہ آباد میں 21رمضان کو میرا نوحہ آج تیس سال کے بعد بھی پڑھا جاتا ہے۔ میں جب خود اپنے سو ماتمی نوجوانوں کے حلقے میں نوحہ پڑھتا تھا تو بجنو ر اور سہارنپور کے بازاروں میں سامعین کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے تھے۔ اگر آواز کی لہریں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں تو وادئ گنگ وجمن میں آج بھی میری مترنم آواز گونج رہی ہوگی۔ امروہہ میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اہلِ سنت کے ایک میلاد میں ’’یا نبیؐ سلام علیک‘‘ پڑھا تو لوگ پیشہ ورموسیقار کی طرح گھسیٹتے پھرتے تھے۔ میرے کمرے میں مٹھائی کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ میں نے اپنی آواز کی دیکھ ریکھ میں کوئی احتیاط نہیں برتی اور وطن کو الوداع کہنے کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی میری آواز خراب ہوگئی۔ اب کبھی کبھی غسل خانے میں ترنم کے ساتھ کوئی غزل پڑھتا ہوں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ اور یادآیا کہ لکھنؤ یونیورسٹی میں گل فروش پھولوں کے گجرے لئے عموماً گھوما کرتے تھے۔ میری کلاس فیلومس کھنا کلاس شروع ہونے سے پہلے روزانہ پھول والے کو آواز دیتی تھی۔ ’’اے پھول والے۔ ادھر آئو‘‘ روزانہ یہ آواز سنتا تھا۔ ایک دن ایک نظم عجلت میں کہہ ڈالی ’’وہ کھڑے پکارتے ہیں ادھر آتو پھول والے‘‘۔ یہ نظم خالد جمیل کے ذریعے جو پاکستان میں کموڈور خالد جمیل ہو کر ریٹائر ہوئے ایک بنگالی لڑکے کے پاس پہنچ گئی۔ اس لڑکے نے یہ غضب ڈھایا کہ یونیورسٹی کی ایک شاندار تقریب میں جس میں تقریباً تین ہزار لڑکے اور لڑکیاں شریک تھیں۔ ستارہار مونیم او رطبلے کی سنگت پر یہ نظم اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں گائی۔ مس کھنا تقریب سے ’’Walkout‘‘ کر گئیں۔ مقدمہ وائس چانسلر تک پہنچا۔ وائس چانسلر نے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کردیا کہ شاعروں کا محبوب خیالی ہوتا ہے۔ مس کھنا سے کہا ‘‘You wear the cap if it fits you‘‘ بڑی مشکل سے جان بچائی۔نکالے جانیمیں کوئی کسر باقی نہ تھی کیونکہ وہ نظم میری Hand Writingمیں پکڑی گی تھی۔ میں پھر بہک گیا۔ میں نوجوانی میں سیمابی مزاج رکھتا تھا۔ میری زندگی ہی شورشوں اور ہنگاموں سے عبارت ہے۔ میں کیا کروں واقعات اور حادثات میرے سامنے صف باندھے کھڑے ہیں اور بدقسمتی سے میری یاد داشت بھی کمزور نہیں ہے۔ خیر! چھوڑتا ہوں ان قصوں کو- 1937میں’’ایم اے‘‘ کرنا تھا لیکن ’’اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘ شادی ہوگئی۔ میری منگیتر کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہمارے گھر میں لڑکیاں تھیں مگر سب پررہبانیت چھائی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے لوٹوں سے وضو کرنا نمازیں پڑھنا اور ہاتھ پیر دن میں بیسوں دفعہ دھونا۔ پاک کرنا ۔۔میری موجودہ بیوی باہر سے آکر ہمارے خاندان سے منسلک ہوگئیں تھیں۔ ذرا بدلاہوا انداز۔ کھانے پینے اور پہننے کا سلیقہ تھا۔ میں نے پہلی ہی نظر میں پسند کرلیا۔ والد بھی چاہتے تھے کہ گھر کی زمینداری گھر سے باہر نہ جائے۔ چنانچہ عجلت میں، انتہائی سادگی کے ساتھ ہماری شادی ہوگئی۔ دیگوں اور تنور کا ہنگامہ تھا۔ گھوڑے پر چڑھ کر مسجد اور امام باڑے سلام کے لئے گئے تھے اور واپسی میں قبر ستان میں لیٹے ہوئے بزرگوں کو بھی سلام کرکے آئے تھے۔ شادی میں صرف گھر کے دوچار آدمی شریک تھے۔ نہ باجا۔ نہ گاجا۔ نہ کوئی رقص وسرور کی محفل ۔ سہرابھی نہیں پہنا صرف ایک گلابی شال اوڑ ھ کر بیٹھ گئے اور دس منٹ کے بعد نکاح سے فارغ ہوگئے۔ میری شادی میں رومان کو بہت کم دخل ہے۔ اس تقریب کا ذمہ دار دماغ تھا۔دل پہ بہت کم ذمہ داری آتی ہے…۔

1938ء میں جب بٹو پیداہوئی تو ہم بیکار تھے اور ریئسوں کی طرح بالا خانے پر تاش کھیل رہے تھے۔ تقریباً ایک سال ضائع کرنے کے بعد پھر لکھنؤ پہنچے۔ یہ ہندوستان کی بدترین اقتصادی بد حالی کا دور تھا۔ ملازمتیں عنقاتھیں۔ بہت کوشش کے بعد یوپی سکریٹریٹ میں اسسٹنٹ کی جگہ ملی وہاں تقریباً ہر شعبے کا سپر نٹنڈنٹ انگریز تھا۔ ہمارا رئیسانہ مزاج ماتحتی کے شکنجوں کو برداشت نہ کرسکا۔ انگریز غلام ملک کے ہر باشندے کو غلام سمجھ لیتے تھے۔ اور انگریزوں سے ہمارے آبائو اجداد کا قدیمی جھگڑا تھا لہٰذا ہر سپرنٹنڈنٹ سے لڑائی ہوئی۔ ہم استعفیٰ دیکر انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔ وہاں ایک بڑے بابو ہمارے افسر ہمارے گارجین اور ہمارے استاد ۔۔غرض سب کچھ تھے۔ بات کرتے تھے تو عینک ناک کی نوک پر رکھ لیتے تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک Contractor Billبنانے کے لئے دیا۔ چاردن ہم جھونجتے رہے لیکن کچھ پلے نہ پڑا۔ بڑے بابو بگڑ گئے کہ تم نے بی اے آنرز پاس کیا ہے۔ تم سے Billنہیں بنتا۔ عرض کیا کہ وہاں ہم نے انگریزی اور تاریخ پڑھی ہے۔ شیکسپئر، اکبر اور شاہجہاں کے متعلق کچھ پوچھو تو ہم بتائیں۔ یہ Contractor Billہم سے نہیں پڑھا جاتا ۔ کہنے لگے کالج اور یونیورسٹی میںسب کچھ پڑھا یا جاتا ہے۔ ہم نے کہا کہ آپ نے Ninthکلاس سے پڑھناچھوڑدیا تھا آپ کو کالجوں کی خبرنہیں۔ اُس نے ہماری شکایت انسپکٹر صاحب سے کردی اس نے ہمیں Notingاور Draftingپر لگادیا۔ Typist sectionکے لوگوں کے مزے آگئے نہ ہم ڈرافٹ لکھیں نہ وہ ٹائپ کریں۔ کلرکوں کے Typistڈرافٹ کی لسانی ساخت بھی ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک دن ایک چار لائن کا ڈرافٹ لکھ کر ٹائپسٹ کو دیا فلاں دن چھٹی نہیں ہوگی ٹائپسٹ نے Negativeچھوڑ دیا۔ بڑے بابو بھی نیند کی جھونک میں چڑیا بن گئے اور آئی جی نے بڑے بابو کی چڑیا دیکھ کر دستخط کردیئے۔ یوپی کی باون جیلیں بند ہوگئیں بڑے بابو Suspendہونے کے بعد ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے۔ ہمارا Selectionگارڈ کی حیثیت سے ریلوئے میں ہوچکا تھا۔ ہم نے استعفیٰ لکھ کر ان کے ہاتھ میں دیدیا۔ اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ’’بابا اس دفتر کو جو سونے کی چڑیا ہے آج تک کسی نے نہیں چھوڑا ہم نے کہا کہ آپ کا ایک مردِ قلندر سے واسطہ پہلی دفعہ پڑا ہے۔ ہم نے گارڈ کا Appointment letterجیب سے نکال کر دکھلایا تو پانچ روپئے کی مٹھائی اپنی جیب سے منگا کر بڑے بابو نے ہم سب کو کھلائی۔ اُس زمانے میں پانچ روپئے کی دس سیر مٹھائی آتی تھی۔ ’’کیا بات تھی۔ اپریل 1940 ء میں ہم نے الہٰ آباد پہنچ کر بحیثیت گارڈ Joinکیا۔ 1939ء 30دسمبر کو والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ اور والد کے انتقال کے ایک ماہ کے اندر اندر عروج صاحب پیدا ہوئے۔

گارڈ ہوئے تو ہم خودہی افسر اور خودہی ماتحت تھے۔ بلکہ شاہی زندگی جو ہمارے ـضمیر میں تھی ہمیں واپس مل گئی ۔ہن برسنے لگا۔ انگلو انڈین کالونی میں ایک بنگلہ بھی مل گیا جس کو ہم نے بہترین فرنیچر سے آراستہ کرلیا سلیمان جو آج کل لانڈھی میں مٹھائی کی دکان لئے بیٹھا ہے میرا ذاتی ملازم تھا۔ شام کو ہوا خوری کے لئے نکلتے تھے تو سوٹ پہن کر نکلتے تھے۔ گولڈ فلیک کا ٹن ہاتھ میں ہوتا تھا۔ گاڑی پر آٹھ خلاصی او رایک باورچی ہمارے ساتھ چلتا تھا۔ کھانا چُنا جاتا تھا تو ہمارے ٹیبل پر انواع واقسام کی Dishesہوتی تھیں۔ مرغ اور مرغ پلائو تو لنچ میں ضرور ہوتا تھا۔ ناشتے میں پراٹھے پامز کے بسکٹ ۔علی گڑھ کا مکھن۔ وغیرہ وغیرہ۔سیب کا مربہ اور جیلی اور ہاف فرائی انڈے ہوتے تھے۔ اصلی گھی میں کھانا پکتا تھا۔ ہر کھانے پر میٹھا ہونا ضروری تھا۔ اس لئے ایک خلاصی روزانہ ہاتھرس جاتاتھا اور سیر بھر برفی لیکر آتا تھا۔ چائے ہروقت تیار رہتی تھی۔Orange Peaksکے علاوہ کوئی چائے کی پتی استعمال نہیں ہوتی تھی۔ الٰہ آباد سے دہلی اور دہلی سے واپس الٰہ آباد آٹھ دن کا سفر تھا جو نوابوںاور راجائوں کی طرح کٹتا تھا۔ میرے کام کرنے کی لگن اور محنت کا بھی یہی عالم تھا کہ تین تین راتیں جاگ کر گزار دیتا تھا۔ علی گڑھ کا اسٹیشن ہو کہ خورجہ۔ ٹنڈولہ یا ہاتھرس کا مجھے وہ نقشہ یاد ہے کہ پلیٹ فارم پر پڑی ایک گانٹھ پر بیٹھاہوں۔ بنیانوں کے ایک بکس کو میز بنارکھا ہے جس پرچائے دانی دودھ دان اور شکردان سلیقے سے چنے ہوئے ہیں۔ گولڈ فلیک کا ڈبہ رکھا ہوا ہے۔ ہر پندرہ منٹ کے بعد چائے چل رہی ہے اور میں اپنے کام میں مصروف ہوں اور خلاصیوں کو سامان مختلف ڈبوں میں رکھنے کی ہدائیت دے رہا ہوں۔ خلاصیوں کی جیبیں کشمشوں سے بھری ہوئی ہیںجو وہ بوروں سے نکال لیتے تھے۔ عرق ِگلاب کا ڈرم ٹپکنے لگا تو اسکو بالٹی میں بھرواکر اپنے سفری سیلون میں گلاب کا چھڑکائو کرادیا۔ پانی مانگا تو آٹھ خلاصی پانی لے کر الگ الگ روڈ سے چلے آئے ۔رات کے وقت خلاصیوں کے Mateبرج لال کو بھوک لگی تو وہ ایک ڈبے میں گھس گیا اور آدھ سیر گلقند سیب کا مربہ سمجھ کر کھا گیا۔ کالر ا ہوگیا۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ ستر پچھتر دست آچکے ہیں۔ اسٹریچر پہ علی گڑھ کے اسپتال میں بھیج دیا اور گاڑی دہلی کی طرف روانہ ہوگئی۔ واپسی میں ملے تو بہت ڈانٹ پھٹکار سنکر کہنے لگے۔ ’’جناب بُراو قت آگیا تھا او رنہیں تو آدھ سیر چھوڑ سیر بھر جی ایک وخت میں کھائن رہے‘‘ گلطی جرور ہوئی ہے۔’’سنگی ساتھی کہن ہیں نوکری سے اتارت ہو۔ صاب بار بچہ کھابے حجورای بارمانی دو‘‘ آگے یہو کرن والے پر نعلت‘‘۔ میرے ساتھی گارڈ حشمت اللہ کو ہنسی آگئی اور اس سفید بالوں والے گارڈ کی سفارش پر میںنے اسے معاف کردیا اور اُس کی نوکری بحال کردی۔ ویسے مجھے معلوم ہے کہ وہ سیب کا مربہ اس واقعے کے بعدبھی دبا کر کھاتا تھا۔ کانپور والے جگی لال کملاپت مل کی تیار کی ہوئی بنیانوں ،دیال باغ آگرہ کے بوٹ اور بنگالی پانچ گزی دھوتیوں کی چوری اس پر ماں کے دودھ کی طرح حلال تھی۔ عید کے دن مسلمان خلاصیوں کے کپڑے ملنے کا انتظام بھی وہ بہ نفسِ نفیس فرماتے تھے۔ ہاتھ میں اس قدر صفائی تھی کہ Packingاپنی اصلی حالت پر بر قرار رہتا تھا اور مجھے اور حشمت اللہ کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی کوئی Packingخراب ہوتا تھا تو مجھے دکھا کر کہتا ’’یہو نگ کھراب ہے۔ تار کھڑکھڑائو‘‘… Mateہی جو لہڑا یعنی خلاصیوں کا افسر۔ کام میں اسکو انتہائی مہارت حاصل تھی۔ ہر اسٹیشن پر مال اتارنے میں دوتین منٹ سے زیادہ نہیں لیتا تھا کیونکہ وہ ایک اسٹیشن کا مال پچاس ڈبوں سے نکال کر ایک ہی ڈبے میں رکھتا تھا جس کا نمبر وہ میرے چارٹ میں دیکھ کر ہی یاد کرلیتا تھا۔ مال اٹھانے کی گنجائش نہ ہو تو اپنے ہاتھ سے No Roomلکھ کر الٹے سیدھے دستخط کردیتا تھا۔ ایک دو گھنٹے مجھے نیند آگئی تو وہ سب کام اسی طرح کرتا تھا جس طرح میں کرتا تھا۔ سیٹی اور ہری جھنڈی سے گاڑی ہی خود اسٹارٹ کرلیتا تھا… بڑے عیش کی زندگی تھی اور ساتھ ساتھAdventurousبھی تھی لیکن فلک کج رفتار سے دیکھا نہ گیا۔ Hardyنے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ''Man for Enjoyment and Nature against Enjoymentفطرت کی ازل سے یہی Themeرہی ہے۔

ہندوستان کی تحریکِ آزادی بامِ عروج پر پہنچ گئی۔ وہ جلوس دیکھنے میں آئے کہ ہمارے آبائو اجدادنے نہ دیکھے ہوں گے۔ مہاتما گاندھی اپنے Third Class Reserve comptt.میں الٰہ آباد اسٹیشن پہنچے تو ریلوے کراسنگ کے پھاٹک اور اسٹیشن کے گیٹ ٹوٹ گئے۔ ہجوم منتشر ہوا تو آٹھ آدمیوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ پنڈت نہرو۔ ابوالکلام آزاد اور اندرا گاندھی روزانہ سول لائن پر ٹہلتے ہوئے مل جاتے تھے۔ 1942ء میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو حسرتؔ موہانی ۔ خلیق الزماں۔ بہادر یار جنگ اور محمد علی جناح کی تقریریں سنیں۔ بہادر یار جنگ کی ساحرانہ تقریر اور اپیل پر لوگوں نے نوٹوں کی گڈیاں اور عورتوں نے زیور اُتار اُتار کر پھینکنا شروع کردیئے۔ مجھے یاد ہے کہ قائد اعظم کا نپتے ہوئے اور غصے کے عالم میں سرخ چہرے کے ساتھ اُٹھے اور بہادر یا رجنگ کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا’’Please Keep quiet‘‘ اور پھر ٹوٹی پھوٹی اردو میںکہا کہ "ہم یہ زیور اور روپیہ نہیں مانگتا۔ اُٹھائو اپنا روپیہ اور اپنا زیور۔ محمد علی اور شوکت علی نہیں بننا مانگتا"۔ اتنا کہنا تھا کہ لیاقت علی خاں اُٹھے او رکہا کہ آپ لوگوں کے جذبات کا شکریہ۔روپیہ پھینکنے والے آئیں اور اپنے عطیے کی رسید حاصل کریں۔ عورتیں اپنا زیور اپنے پاس رکھیں۔ آئندہ عطیات اس پتے پر روانہ کریں۔ پھر بینک کا پتہ نوٹ کرایا۔ پھر کہا کہ میرے اور قائداعظم کے نام پر کوئی روپیہ نہ بھیجے۔ قائد اعظم یہی چاہتے ہیں اور قائد اعظم نے گردن اقرارمیں ہلائی اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اجلاس میں President Shipکے لئے قائداعظم کے علاوہ کسی کا نام نہیں پیش کیا گیا توحسرت موہانی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ غصے سے لرزہ براندام تھے۔ منہ میں جھاگ تھے اور بار بار کہتے جاتے تھے I do not want this flat foot Govtکیا مسلمانوں میں صلاحیت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ قیدیو بولو۔ غلامو بولو خوشامدیو بولو۔ چودھری خلیق الزماں اُٹھے اور انہوں نے کندھے پکڑ کر حسرت موہانی کو بٹھایا۔ قائد اعظم نواب محمد یوسف کے یہاں ٹھہرے تھے۔ ہم وہاں بھی ملنے گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے نکل کر فرمایا۔ قائد بیمار ہے او رہم سات آدمی ایک ایک پیالی چائے پی کر اور محترمہ سے باتیں کرکے واپس آگئے۔ پھر Quit India Pactشروع ہوگیا۔ اپنی آنکھوں سے نوجوانوں پر گولیاں چلتے دیکھیں ایسے نوجوان بھی دیکھے جو پولیس کی گاڑیوں کے سامنے لیٹ گئے۔ لڑکیوں کا ایک سیلاب آگیا ہر دکان پر دوچار لڑکیاں Picketingکے لئے کھڑی تھیں۔ ہفتوں دکانیں بند رہیں۔ گولیوں اور نعروں کی آوازیں شہر میں گونجتیں رہیں۔ پھر اک صورِاسرافیل پھو نکا گیا۔ جس سے مرد ے بھی قبر میں دہلنے لگے۔ یہ ملک کے بٹوارے کا صور تھا ہر گلی کو چے میں بس یہی آواز تھی’’لے کے رہیں گے پاکستان ۔ بٹ کے رہیگا ہندوستان‘‘۔ دوقو میں آپس میں ٹکرائیں اور ہر شہر میںفساد شروع ہوگئے آخر 14؍اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا اور وہی پاکستان وجود میں آیا جس کو قائد اعظم نے کئی بار یہ کہہ کر ٹھکرادیا تھا کہ ’’I dont want this mutilated mouth eaten and truncated Pakistan‘‘ 17اگست کو میں اپنی گاڑی لے کر دہلی کی طرف چلا تو ہندوستان کا نقشہ بدل چکا تھا۔ گاڑی چلتی رہی اور ہم ہر دوتین میل کے بعد دور دور کے گائوں اور شہروں میں آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھتے رہے۔ وحشتناک آوازیں فضا میں گونج رہیں تھیں۔ دہشت کے عالم میں ہم نے راتیں جاگ کر گزاریں ۔ہندو کو ہر مسلمان اور مسلمان کو ہرہندو قاتل نظر آرہاتھا۔ بڑی مشکل سے 24اگست کو الٰہ آباد واپس آئے۔ موت کے منہ سے نکل کرآئے تھے۔ فوراً ایک مہینے کی چھٹی لے لی اور اس چھٹی کا سلسلہ ترک ِوطن سے جاملا۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہم ہندستان ہی سے چھٹی لے چکے ہیں۔ 25اگست کو وہ خالی ٹرین الٰہ آباد کے اسٹیشن پر پہنچی جس میں خورجہ سے قبل ایک اسٹیشن پر مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کردیا گیا تھا۔ الٰہ آباد اسٹیشن پر کہرام برپا ہوگیا گاڑی کے ڈبے خون میں لت پت تھے۔ بدن کے ٹکڑے ڈبوں میں بکھرے پڑے تھے بس یہی وہ منزل تھی کہ الٰہ آباد میں بھگڈر مچ گئی۔ ریلوے والوں نے پاکستان کاOptionدیدیا میں آخر تک ترک وطن کے خلاف تھا لیکن رشید گارڈ ریلوے اسٹیشن پر قائداعظم کے نام سے مشہور تھے میرے مکان پر مسلم لیگ کا جلوس لیکر پہنچ گئے اور کفر کے فتوے کی دھمکی پر مجھ سے پاکستان کا Option formبھروالیا۔ اگلے دن ہم نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنے بنگلے کا سامان ایک ریل کے ڈبے میں Packکیا اور اُس پر لاہور کا لیبل لگا دیا۔ ہماری بیگم صاحبہ نے یہ عقلمندی فرمائی۔ Cash Boxبھی اس میں لدوادیا۔ رات کو چوری ہوئی تو لوگ سب چھوڑ گئے صرف۔ Cash Boxلے گئے اس میں نہ روپیہ تھا نہ زیور۔ میری یونیورسٹی کی ڈگریاں میٹرک اور انٹر کے سرٹیفیکٹ اور سیتاپور کی ایک لڑکی کے بیس بائیس خطوط جو ان دیکھے رومان کے سلسلے میں میرے پاس آئے تھے۔ میں نے اس لڑکی کو کبھی نہیں دیکھا ۔اُس نے البتہ مجھے دیکھ کر پان اور رومال کا تحفہ اپنے لکھنؤ والے مکان کی دوسری منزل سے میرے مکان میں پھینکا تھا۔ وہ سلسلہ تفریحاً چلتا رہا جب اس نے ہمیں سیتا پور آنے کی دعوت دی اور اپنے والد بیر سٹر صاحب کے مکان کا پورا نقشہ اور پتہ بھی بھیجا تو پاکستان بن چکا تھا اور ہم ’’جب لاد چلے گا بنجارا سب ٹھاٹ پڑارہ جائے گا‘‘ کی مالا جپ رہے تھے۔ یہ ہمارے رومان کا وہ غنچہ تھا جو بن کھلے مرجھا گیا۔ ممکن ہے کہ وہ محترمہ بھی کراچی میں موجود ہوں لیکن پچاس لاکھ کے شہر میں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی۔ اس چوری کے بعد ہم نے ڈبے کا لیبل بدل دیا اور بجائے لاہور کے اُس پر نجیب آباد لکھ دیا۔ یعنی عمر بھر کی کمائی وہیں کی وہیں رہ گئی۔ اور ہم 28ستمبر 1947ء کو سولہ آدمیوں کے قافلے کے ساتھ الٰہ آباد پلیٹ فارم سے بذریعے Bombay Mailروانہ ہوئے بمبئ کے لئے۔ ہمارا ذاتی ملازم سلمان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ پندرہ روز بمبئ میں قیام کے بعدجہاز سے ہم چار روز میں کراچی پہنچے۔ میں یہ بتانا بھول ہی گیا کہ الٰہ آباد کے دورانِ قیام میں 1944میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام شمیم اختر رکھا گیا اور 1946 ء میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کو ہم سعید اختر کہتے ہیں۔ اس کی پیدائش الٰہ آباد کے اسپتال میں ہوئی ۔میں دہلی گیا ہوا تھا۔مصطفیٰ زیدی نے اہلیہ کو اسپتال میں داخل کرانے اور سعید اختر کے کان میںاذان دینے کے فرائض انجام دیئے۔ شاید مرحوم نے اپنی زندگی میں پہلی اور آخری بار وہ اذان دی ہوگی…۔

مصطفیٰ زیدی کے بڑے بھائی مجتبیٰ زیدی پہلے ہی کراچی پہنچ کر حسبِ وعدہ اپنے اور میرے لئے ایک فلیٹ کا انتظام کر چکے تھے۔ جس میں آکر میں اور عزیز جلال حیدر مقیم ہوئے۔ الٰہ آباد میں میری ایک نوحوں کی کتاب ’’جو کلیم ِکربلا‘‘ کے نام سے مشہور ہے یہ ملک کی تقسیم کے چند ماہ قبل شائع ہوچکی تھی۔ اس کتاب کے آدھے نوحے میرے اور آدھے مجتبیٰ زیدی کے تھے۔ کتاب کی ایک ہزار جلدیں مجتبیٰ کے ساتھ پاکستان آئیں تھیں جو فوراً فروخت ہوگئیں۔ کراچی پہنچ کر میرا جلال حیدر کا اور میرے چند دوستوں کا تبادلہ روہڑی کر دیا گیا اور اب ہمیں پاکستان کے اندرونی نقشے اور حلیئے کا صحیح اندازہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ بمبئ کے سب سے بڑے اسٹیشن Victoria Terminalپر مہاجروں کی زبوں حالی، پریشانی کسمپرسی اور خانہ بدوش زندگی کو دیکھ کر ہی میری طبیعت مکدر ہوچکی تھی۔ گندگی اور بدبو سے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ جہاز پر بغیر ٹکٹ کی پرواہ کیئے یہ تھوک کے بھائو ہجرت کرنے والے لوگ اس طرح ٹوٹ پڑے کہ جہاز میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ کراچی پورٹ پر آئے تو یہ خانہ بدوش قوم میلوں تک زمین پر پھیلی پڑی تھی۔ اس قوم میں یقینا امیر بھی تھے اور غریب بھی لیکن سب خاک پر لوٹ لگارہے تھے؎ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز ‘‘آشیاں اجڑنے کے بعد پرندے بھی روتے ہیں لیکن میں نے زندگی میں پہلی دفعہ ایسی قوم دیکھی جو اپنی آوارہ وطنی غربت، مصیبت، اور پراگندہ حالی پر ہشاش بشاش نظر آرہی تھی۔معلوم ہوتا تھا کہ سونے کے پہاڑ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اور ہر ایک کے ہاتھ میں الٰہ دین کا چراغ ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اُن کے حال پر میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور مجھے ان کا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا… رہی سہی کسر روہڑی پہنچ کر پوری ہوگئی۔ وہاں جاکر پہلی دفعہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ برصغیر میں ہر صوبے کے مسلما نوں کا Cultureایک نہیں ہے انتہائی مختلف ہے۔

ہمارا صوبہ یوپی ہندوستان کا دل تھا۔ وہاں کے کلچر اور زبان کو سارے ہندوستان پر برتری حاصل تھی۔ اس صوبے میں ہندوستان کی ہر قوم اور قبیلے کا آدمی آباد تھا۔ سندھ ،بلوچستان، سرحد، پنجاب اور بنگال کے نوجوانون تعلیم حاصل کرنے کے لئے علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں میں پہنچتے تھے۔ اور وہاں سے ڈگریاں لے کر نکلتے تھے۔ وہ یوپی کے Cultureمیں ضم ہونا فخر سمجھتے تھے۔ ہم نے کسی کو نہ بنگالی بولتے سنا نہ پشتو، نہ سندھی، نہ پنجابی ۔کیونکہ یہ زبانیں یوپی کے کالجوں میں نہ بولی جاتی تھیں نہ پڑھائی جاتی تھیں۔ سب اردو بولتے تھے۔ اردو فلم اور اخبار دیکھتے اور اردو گیت اور غزلیں سنتے اور اردو لکھتے پڑھتے تھے۔ بنگال ،سندھ، پنجاب، بلوچستان، سرحد کے تعلیم یافتہ لیڈر ہمارے یہاں سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے کیونکہ پنجاب کے علاوہ کوئی یونیورسٹی ہی نہیں تھی۔ یوپی میں چھ یونیورسٹیاں تھیں۔ ہمیں ہجرت سے پہلے یہ خوش فہمی ہونا ایک بالکل فطری بات تھی کہ ہماراکلچر سارے ہندوستان کا کلچر ہے اور چھوٹے چھوٹے سب کلچروں کا سرتاج ہے۔ لیکن یہاں آکر Shockہوگیا کہ ہر صوبے کا آدمی اپنی زبان اور اپنے کلچرسے چمٹا بیٹھا ہے۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود یوپی سے علم حاصل کرنے والے اردو اور فارسی کتابیں پڑھنے والے پاکستان بننے کے بعد اردو بولنے والوں پر ہنس رہے ہیں کوئی اردو زبان کو قومی زبان کی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہے ۔کاش ہجرت سے پہلے ہمیں اس بات کا علم ہوتا۔

’’یہ جاتنا اگر تو لٹا تا نہ گھر کو میں‘‘

بہر حال میں سال بھرتک پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں اور یہاں کے تہذیب وتمدن کا جائزہ لیتا رہا اور 1948ء میں دوبارہ اپنے اہل وعیال کو لانے کے لئے ہندوستان پہنچا۔ 1948ء میں ایک تیسرے لڑکے کا باپ بن چکا تھا۔ جس کا نام میں نے پاکستان ہی سے جاوید اختر تجویز کرکے بھیجدیا تھا ۔ وطن پہنچ کر میںنے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ میں ہندوستان ہی میں رہ جائوں لیکن؎’’ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا‘‘۔ ہمارے چچا علی اختر نے غصے میں میرے اوپر زمین جائیداد کا بستہ پھینک مارا کہ تم زمین سنبھالو میں پاکستان جاتا ہوں۔ زمین ہم نے زندگی میں کبھی نہیں سنبھالی تھی۔ لہٰذا پھر اہل وعیال کے ساتھ عازم ِپاکستان ہوئے۔ میرے ساتھ صرف میرے اہل وعیال ہی نہ تھے بلکہ بہت لمبا قافلہ تھا جس میں صادق حسنین، چھوٹا بھائی مرتضی، حسن عباس مرحوم، آفتاب حیدر مرحوم، ظفر یاب حیدر اور جلال حیدر کے اہل وعیال۔ بھائی رضا حیدر مرحوم کے اہل وعیال۔ بے شمار عورتیں اور بچے تھے۔

سفر میں راستے بھر Tensionمحسوس کی اور جب ہم حیدرآباد پہنچے تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آہنی دیوار کھڑی ہوچکی تھی یعنی پرمٹ کے بغیر سفر کی اجازت نہ تھی۔ 31جنوری 1949ء تک میں روہڑی کے اسٹیشن پر سپروائزنگ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ جو ایک اعلیٰ عہدہ خیال کیا جاتا تھا مگر طبعیت نہ لگی۔ روہڑی میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کوئی اسکول نہ تھا۔ بچے سکھر تک تنہا سفر کرتے ہوئے گھبراتے تھے لہٰذا کسی نے بھی اسکول میں داخلہ نہ لیا۔ میں بچوں کی خاطر یہ عزم کر چکا تھا کہ ملازمت چھوڑ دی جائے۔ رات کی ڈیوٹی میں ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اچانک ایک کتے کے اعلانِ جنگ پر ہزارہا کتے گلیوں سے نکل پڑے اور انہوں نے اپنا حلقہ تنگ کرنا شروع کیا تو میں نے اور کوٹ ہاتھ میں لیکر رقص کرنا شروع کردیا اور اس طرح اپنی جان بچاتا رہا جب تک کہ ایک تانگے والا میری امداد کو نہیں پہنچا … ان حالات سے بد دل اور مایوس ہو کر میں نے استعفیٰ دیدیا اور 9فروری 1949کو شکار پور گورنمنٹ ہائی اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کی حیثیت سے نئی ملازمت کی بنیاد رکھی۔ تنخواہ آدھی رہ گئی لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ قدرت نے مجھے محکمۂ تعلیم ہی کے لئے پیدا کیا تھا اور اب تک پورا وقت ضائع ہوا۔ میں نے اس محکمے میں ترقی کے لئے جدوجہد شروع کی۔ ازسرِ نوبغل میں کتابیں دبا کر طالبِ علم بن گیا۔ 1950ء میں سندھ یونیورسٹی سے ایم۔ اے 1952ء میں کراچی یونیورسٹی سے B.Tاور 1957ء میں سندھ یونیورسٹی سے دوسرا ایم ۔ اے کرکے یونیورسٹی میں پوزیشن حاصل کی۔ بی ٹی کرنے کے بعد یعنی 1952ء میں مجھے کالج میں لکچرر کی حیثیت سے ترقی مل گئی۔ اس وقت پورے سندھ میں صرف دوکالج تھے ایک شکارپور میں اور دوسرا حیدرآباد میں۔ میرےStatusمیں بے انتہا اضافہ ہوا۔ 1960میں درجہ اول کا پروفیسر ہوگیا۔ 1964ء میں گورنمنٹ کالج جیکب آباد کا پرنسپل ہوگیا۔ پھر 1965 سے 1970ء تک شکار پور کالج میں وائس پرنسپل رہا۔ 1970ء میں گورنمنٹ کالج ٹنڈو جان محمد ضلع میرپور خاص کا پرنسپل مقرر ہوا جہاں مئی 1973تک رہ کر گورنمنٹ کالج عمر کوٹ ضلع تھر پارکر میں پرنسپل کی حیثیت سے گیا اور وہاں سے 20مئی 1975ء کو 58سال کی عمر میں ریٹائر ہوا۔

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے ،ہزارہا کتابوں کے مطالعے اور محکمۂ تعلیم کی ملازمت جس میں بڑی بڑی لائبریریاں ہر وقت میرے لئے کھلی تھیں اور اسکے ساتھ غورو فکر کی پختگی اور دنیا کے نشیب و فراز کے تجربوں نے میرے اندر ایک ذہنی انقلاب پیدا کردیا تھا۔ اندازِ فکرو نظر بدل گیا اور دنیا کے پراسرار حقیقتوں کے چہروں سے نقاب اٹھنے لگا۔ علم کی تشنگی تھوڑی سی دور ہوئی تو میں نے شاعری کو بالائے طاق رکھ کر ٹھوس علمی اور ادبی خدمات کے لئے قلم سنبھالا سب سے پہلے انگر یزی زبان میں A Short History of Civilizationچھ سو صفحات کی کتاب لکھی۔ اس کتاب کو ڈاکٹر محمود حسین نے بے انتہا پسند کیا اور اس کتاب کے لئے Forewordلکھا۔ دوسرا Forewordڈاکٹر جیلانی نے لکھا۔یہ کتاب سندھ اردو اکیڈمی نے چھاپی۔ آج تک اس کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں لیکن مجھے شہرت کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ مالی منفعت پبلشر کو ہوئی۔ 1960میں،میں نے تاریخِ اسلام پر ایک ساڑھے چار سو صفحات کی کتاب لکھی اردو زبان میں۔ اس کتاب کے مسودے کو گورنمنٹ نے نصاب کے لئے منظور کرلیا اور کراچی بورڈ آف ایجو کیشن نے پہلی دفعہ اس کتاب کو نصاب کے لئے شائع کیا۔ اس کتاب کا نام ’’خلافت کاعروج و زوال‘‘ ہے۔ لیکن تاریخ ِاسلام پر قلم اٹھانا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ شیعہ فرقے کے عالم رشید ترابی نے اس کتاب کو عنوان بناکر اسکی مذمت میں دوتین مجلسیں پڑھ ڈالیں۔ ادھر بورڈ آف ایجو کیشن کے سیکرٹری نے مجھ سے کہا کہ اہلِ سنت کہتے ہیں کہ آپ نے نہایت شستہ اور ذومعنی الفاظ میں صحابہ کرامؓ کو اسطرح بُرا بھلا کہا ہے کہ عام قاری اس کو نہیں سمجھ سکتا۔میں نے مایوسی کے عالم میں یہ شعر پڑھ ڈالا

زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن فیروز سنز نے شائع کیا اور غالباً تیسرا اور چوتھا بھی ۔ میری تیسری کتاب ’’علیؑ ابنِ ابی طالب‘‘ ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے اس کتاب کو میں نے حضرت علی ؑ کی سوانحِ حیات پر ہزاروں کتا بیں پڑھ کر لکھا ہے۔ بڑے بڑے تاریخ کے Scholarsکا خیال ہے کہ حضرت علی ؑ کی زندگی پر اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی لیکن تاریخ ِاسلام پر خامہ فرسائی کی پاداش میں شیعہ عالموں کے طعن آمیز خطوط وصول کررہا ہوں۔ سُناہے کہ وہ اس کے خلاف جواب میں ایک کتاب بھی لکھنے والے ہیں انہوں نے اس کتاب کو Banکروانے کی بھی کوشش کی لیکن نہیںکراسکے کیونکہ کتاب کی عمارت ٹھوس تاریخی بنیادوں اور ستونوں پر استوار ہے۔ ابھی میں نے صرف اس کتاب کی ایک جلد شائع کی ہے۔ ہزاروں ٹیلیفون آئے ہیں کہ دوسری جلد فوراً چھاپیئے…

محکمۂ تعلیم میں میری اولاد میں صرف دو بچوں کا اضافہ ہوا۔ 1950 میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام اُن کی والدہ نے تنویر اختر رکھا اور 1958 میں ایک لڑکا پیدا ہوا جسکا نام میں نے عدیل اختر رکھا۔ اب کچھ اپنی اولاد کے بارے میں… کالج میں کرسی حاصل کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میری اولاد اعلیٰ تعلیم کے لحاظ سے اس وقت صف ِاول میں کھڑی ہوئی ہے۔ مجھے خدانے چار لڑکے اور تین لڑکیاں ودیعت فرمائی ہیں…۔

1… ’’مہرؔاختر‘‘ سب سے بڑی لڑکی کا نام’’مہر اختر‘‘ ہے۔ اس نے تاریخِ عمومی میں ایم۔ اے اور فنِ تدریس میں بی۔ٹی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ بڑے بڑے گورنمنٹ کالجوں میں لیکچرر رہ چکی ہے اور جب اُس کی شادی ہوئی تو وہ گورنمنٹ گرلز کالج شکارپور میں پرنسپل کے عہدے پر کام کررہی تھی۔ اُس کی شادی میرے ماموں زاد بھائی خورشید رضا سے 1972ء میں ہوئی تو اسے گورنمنٹ سروس سے استعفیٰ دیکر اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ جانا پڑا۔ یہ لڑکی تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ انتہائی بردبار۔ دانشمند اور بہن بھائیوں اور ماں باپ کے لئے محبت کا مجسمہ ہے۔ حسن اتفاق سے اُس کا شوہر خورشید رضا بھی انتہاسے زیادہ نیک، بااخلاق، ملنسار، اعلیٰ تعلیم سے مزین، ذمہ دار، محنتی اور ذہین ہے۔ وہ ایک Self Madeانسان ہے جس نے خالص اپنی جدو جہد سے اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ منازل حاصل کیئے ہیں۔ خاندان کی اقتصادی بدحالی کے پس منظر میں کسی اور بچے کے لئے ابتدائی تعلیم بھی ناممکن تھی مگر وہ صحیح معنوں میں خورشید نکلا۔ میں نے شادی میں زیرلب یہ شعر پڑھا تھا جو میں برسر ِعام نہیں پڑھ سکتا تھا۔

ذرات گو چھوڑ کر رقیبوں کے لئے خورشید پہ بڑھ کے ہاتھ ڈالا میں نے

اولاد میں دوسرے نمبر پر عروج اختر آتے ہیں۔

2…’’عرؔوج اختر‘‘

عروج اختر نے سندھ یونیورسٹی سے انگلش میں ایم ۔اے کیا اور پھر وہ مختلف کالجوں میں جس میں میرا اپنا گورنمنٹ کالج شکار پور بھی شامل ہے انگریزی پڑھاتے رہے۔ کامیاب ٹیچر ہونے کی بنیاد پر محکمۂ تعلیم میں اُن کا وقار کافی بڑھ گیا تھا اور امید تھی کہ ان کو گورنمنٹ کی طرف سے بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اسکالر شپ مل جائے۔ لیکن اب اُن کے مزاج کا ذکر آجاتا ہے جو انتہائی متلون اور سیمابی ہے اور جس کو بدلنے پر وہ بھی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی شروع سے یہی دعا تھی کہ ’’اے جبرئیلِ قوت پرواز دے مجھے‘‘…

قوت پرواز انہیں مل گئی اور وہ 1971ء میں اپنی بیوی کے ساتھ اُڑکر کینیڈا پہنچ گئے۔ اعلیٰ ملازمت کو اس طرح لات ماری کہ ؎ ’’نوکری چھوڑی تو اُتری ہوئی پاپوش ہے پھر‘‘۔

اب کینیڈا کے باشندے ہیں اور مشرقی اطٰور واقدر اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھے ہیں اور مغربی تہذیب میں اپنے گھر کو مشرقی تہذیب کا Museumبنارکھا ہے۔ اُن کی ذرہ برابر خطا نہیں ہے۔ صورت اور سیرت انہیں مجھ بندئہ حقیر ہی سے ترکے میں ملی ہیں۔ میرے دوست انہیں پہلی دفعہ دیکھ کر پہچان لیتے تھے کہ وہ میرا بیٹا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ

’’بیٹا وہی قدم بہ قدم ہو جو باپ کے ‘‘

میں اپنے بیٹوں کو جہاز کے لنگر سمجھتا تھا۔ اور میں ہر لنگر کو بکھرے ہوئے خاندان کے مختلف جزیروں کے کنارے باندھ کر تجدیدِ تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہتا تھا۔ لڑکیوں کی حدتک میری اسکیم کامیاب رہی لیکن لڑکوں نے شادیوں کے سلسلے میں دل کے مشورے پر عمل کیا۔ دماغ کی بات نہ پوچھی۔ عروج صاحب نے بھی اپنی پسند سے شادی کی۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اُن کی بیوی شبانہ حسن صورت و سیرت میں لاجواب ہے۔ ایسی لڑکیاں کم ملتی ہیں لیکن خاندانی پیوند کاری کا منصوبہ ایک حیثیت اور اہمیت ضرور رکھتا ہے۔ صورت اور سیرت کی خوبیوں کے علاوہ شبانہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے شوہر کو پرِپرواز بخشے ورنہ وہ اتنی آسانی سے پرواز نہیں کرسکتے تھے۔

جہاں تک صلاحیتوں کا تعلق ہے عروج صاحب کو علم وادب کا تابندہ ستارہ کہا جاسکتا ہے۔ بلا کا حافظہ ہے۔ اردو ادب پر عبور ہے ساتھ ساتھ انگریزی ادب پر بھی دسترس حاصل ہے۔ اندازِ تقریر و تحریر میں مقناطیسی کیفیت ہے۔ دونوں زبانوں کا حظ جاذبِ نظر ہے۔ اخلاق میں خاص عرب واقع ہوئے ہیں یعنی اگر ان کے گھر میں گائے ہے تو وہ مہمانوں کو ذبح کرکے کھلادیں گے اس کی پرواہ نہیں کریں گے کہ صبح کی چائے کے لئے دودھ کہاں سے آئے گا۔ ہاتھ میںکچھ بھی نہ ہو تو بھی سینے میں حاتم طائی کادل رکھتے ہیں۔ اگر یہ بادشاہ ہوتے تو خزانے اور Revenueکے محکموں پر جھاڑو پھر جاتی۔ بجٹ اُن کے لئے لفظ ِمہمل ہے… یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ان کو مزاج میں جو کچھ ملا ہے اس حقیر پر تقصیر سے ورثے میں ملا ہے او راپنی ذات کے لئے تو میرا ایمان یہ ہے۔

ہوچکا روزِ اولین ہی جگر جس کو جتنا خراب ہونا تھا

شہرِ علم و ادب کی کوچہ بندی کرنے والے نوجوان اگر جذباتی ہوں اور شاہی مزاج رکھتے ہوں تو ترقی کے Chancesففٹی ففٹی رہ جاتے ہیں۔ لیکن اُن کی Ambitionsپوری ہو جاتی ہیں تو پھر وہ زندگی بھر ایک درخشندہ ستارے کی طرح چمکتے رہتے ہیں۔ عروج صاحب کے دولڑکیاں ہیں ایک کا نام عالیہ عرف ڈیزی اور دوسری کا نام عرشیہ عرف Lilyہے۔ وہ ہمیں ہمارے فوٹوز کے ذریعے جانتی ہیں…

3…’’شمیمؔ اختر‘‘

شمیمؔ اختر نے Botanyمیں M.Scکیا اور کافی عرصے تک گورنمنٹ کالج ملتان۔ لاڑکانہ جیکب آباد میں لیکچر ر کی حیثیت سے خدمات انجام د یں۔ اس کی شادی 1971ء میں عزیزم صفدر رضا سلمہ سے ہوئی جو آج کل قائد آباد میں Wollen Millsکے ڈپٹی چیف اکائونٹنٹ ہیں اور وہ انتہائی خوش اخلاق پر خلوص محنتی اور منکسر المزاج نوجوان ہے۔ شمیم اختر رنگ وروپ اور عادات و خصلات میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے تھوڑی سی مختلف ہے۔ بہت خوش مزاج ہے اور اُسکے لبوں پر ہر وقت تبسم کھیلتا رہتا ہے۔ بہت خوش لباس ہے۔ نئے کپڑے سینا اور پہننا اسکا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ بنائو سنگھار کابھی بے حد شوق ہے۔ گھر گھر ہستی اس حدتک ہے کہ اس کا گھر ہر وقت صاف ستھرا اور بہترین فرنیچرسے آراستہ رہتا ہے۔ اس کی Dinning Tableپر ہر قسم کی Dishesاسکی تیار کی ہوئی ہوتی ہیں۔ شگفتگی اور صفائی اس کے مزاج کے اہم عناصر ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں ماں باپ شوہر اور دوسرے رشتہ داروں سے وارفتگی کی حدود تک محبت کرتی ہے۔ سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ شوہر اور بیوی میں ہم رنگی اور ہم آہنگی ہے۔ اس کے شوہر میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بے انتہا ذمہ دارقسم کا انسان ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے شمیم اختر کا اردو اور انگریزی خط بہت دیدہ زیب ہے جو نوے فی صد لڑکیوں کا بھی نہیں ہوتا…۔

4…’’سعیدؔ اختر‘‘

سعید اختر نیوی کی تمام Trainingsاور امتحانات سے فارغ ہو کر National Shipping Corporationمیں ترقی کرتے کرتے Chif Engineerکے عہدے پر پہنچ گیا او رآج کل مصطفیٰ گوکل کے Shipping Corporationمیں جس کا Head Quarterہانگ گانگ میں ہے چیف انجینئر ہے۔ اُس کی تنخواہ پاکستانی Currency میں… Rs18000/=ہے جو پاکستان میں مشکل سے کچھ افسروں کی ہمارے خاندان میں ہوگی۔ یہ لڑکا صورت اور شکل سے ہم پر ہے لیکن مزاج کے اعتبار سے تمام بہن بھائیو ں سے مختلف ہے۔ سیدھا سچا نوجوان ہے۔ Showاور بے جا لباس کی طرف توجہ دینے سے متنفر ہے۔ باوجود اس کے جامہ زیب ہے۔ ایسا جسم کی ساخت کی بدولت ہے۔ جذباتیب اس کو ورثے میں ہم سے ضرور ملی ہے لیکن Quick grasp Right Thinkingاور Practical Natureکے اوصاف اس کے جذبات پر حاوی آجاتے ہیں۔ اپنی ماں، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے اُسے والہانہ محبت ہے۔ اب رہا باپ کا معاملہ سو باپ سے بغاوت کرنا نئی نسل کا مقبول ترین فیشنہے۔ باپ کے فرائض ہزاروں ہیں حقوق کچھ بھی نہیں۔شکر ہے کہ اس نے مجھ سے ابھی تک بغاوت نہیں کی۔ اس لڑکے کی سب سے اعلیٰ صفت اُسکی احساسِ ذمہ داری ہے۔ کراچی میں ہمارا گھر اُسی کی وجہ سے بساہوا ہے اور بناہوا ہے ورنہ ہم کہیں کے نہ رہتے۔ خصوصاً اس مکان کی فروخت کے بعد جس کو میں نے 1959ء میں خریدا تھا۔موجودہ مکان سعید نے ہی بنوایا ہے ۔اُس کی بیوی سمانہ حسن صورت وسیرت کے لحاظ سے جہاں تک میری رائے ہے انتہائی اچھی ہے۔ لیکن عجیب بدقسمتی ہے کہ دونوں میں ایک دوسرے پر اعتماد بحال نہیں ہوا۔ سعید کے دولڑکے حسن او ر علی۔ ہیں۔ علی بڑا ہے لگتا ہے کہ علی ہمارے خاندان میں سب سے زیادہ حسین نوجوان نکلے گا۔ وہ انتہائی شریر ہے اور ساتھ ساتھ ذہین ہے۔ پائپ پینے پلانے میں میری خاصی مدد کرتا ہے۔ سعید میں جہاں اتنی خوبیاں ہیں وہاں ایک خامی بھی ہے۔ وہ یہ کہ جب عقل کے اوپر جذبات کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ کچھ بھی کرگزرتا ہے او رکہہ گزرتا ہے۔ قوتِ فکر چند لمحوں کے لئے مفلوج ہوجاتی ہے بہر حال ہمارے بڑھاپے کا سہارا یہی نوجوان ہے۔ اگرچہ میں خود سوائے کھانے کے اور رہنے کے خدا کے فضل سے ہر سہارے سے بے نیاز ہوں۔ میں اپنی مدد آپ کا قائل ہوں اور اسی جذبے کے تحت میں نے گاڑی چلانا سیکھی ہے ورنہ بے وجہ کراچی کی سڑکیں ناپنے کا مجھے شوق نہیںہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی میری مدد نہیں کرتا لیکن وقت ،ضرورت اور موڈ کی بات ہے۔ آخر میں ،میں یہ کہوں گا کہ سعید ایک عملی اور Iftofactoقسم کا انسان ہے۔ مشینی دور میں ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے…۔

5…’’جاوؔید اختر‘‘

جاوید اختر جو اس داستان کے محرّک ہیں اور انٹرویو میں میرا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ لڑکا صورت ،شکل اور عادات و خصائل کے لحاظ سے مختلف ہے۔ اس لڑکے نے سندھ یونیورسٹی سے انگلش میں ایم ۔اے کیا ہے۔ وہ Journalismمیں ماسٹر س ڈگری لینا چاہتا تھا مجھ سے سخت غلطی ہوئی کہ میں نے اسے انگریزی میں ایم۔ اے کرنے پر مجبور کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ Journalist Careerکے لئے موزوں ترین انسان ہے۔ انتہائی سوشل ہے۔ دوستوں اور ملاقاتیوں کی تعداد بڑھانے میں اُسے یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ بے تکان بولتا ہے اور کسی topic پر بندش نہیں ہے۔ طبیعت میں مزاح اُس کا خاندانی ورثہ ہے۔ ہشاش بشاش اور متحرک ہے۔ رشتہ داروں اور دوستوں میں بے حد مقبول ہے۔ مجھ سے اکثر و بیشتر کراچی کے آفیسرس نے یہ سوال کیا ہے۔’’کیا آپ جاوید اختر کے والد ہیں؟‘‘اُس کو لکچراری مل جاتی لیکن وہ ایک آزاد منش انسان ہے اور تجارت کے آزاد پیشے کو پسند کرتا ہے۔ اُس نے ایک ایڈور ٹائزنگ فرم کھول رکھی ہے اور نہائیت کامیابی کے ساتھ چلارہا ہے۔ شادی اس نے بھی اپنی پسند کی رچائی ہے اس کی بیوی نسرین Chemistryمیں ایم۔ ایس ۔سی ہے۔ وہ بھی ہر وقت ہنستی کھیلتی رہتی ہے اور اپنے گھر کو جو گارڈن ایسٹ میں ہے نہائیت صاف ستھرا رکھتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے دونوںمیاں بیوی کو کسی دن پریشان نہیں دیکھا۔ دونوں ہم مزاج ہیں۔ اُن کے گھر میں اُن کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔ دونوں خوش خوراک اور خوش پوشاک ہیں۔ اس کے باوجود دونوں اپنے اقتصادی حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں…۔

جاوید کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک Balanced Tempramentکا انسان ہے۔ اس کے مزاج میں وہ تنک مزاجی جوتکبر اور نخوت کی حدود کو چھوتی ہو اور دوسروں کو اس بات کا احساس دلاتی ہو کہ ’’ہم چنیں دیگرے نیست‘‘ نہیں ہے وہ بزرگوںکے احترام سے واقف ہے اور بزرگوں کو اپنی بے جاحرکتوں سے مجبور نہیں کرتا کہ وہ اُس کا احترام کریں۔ وہ سوٹ پہنتا ہے لیکن کریز اورٹائی دیکھ کر اس طرح نہیں ناچتا جس طرح موراپنی دم دیکھ کرنا چتا ہے کیوں کہ یہ حرکت نو دولتے پن اور احساس ِکمتری کی نشانی ہے۔ جاوید اور نسرین کے دو لڑکیاں ہیں۔ بڑی کا نام میں نے خود ہی’’مونا‘‘ رکھا تھا اور دوسری کا نام ’’بینا‘‘ غالباً گڈو نے رکھا ہے۔ مجھے خود مونا سے بہت پیار ہے کیونکہ وہی ایک بچہ ہے جسکو ہم سے قریب رہنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوئے ہیں۔ وہ جب بھی آتی ہے میرا پائپ ضرور صاف کرتی ہے اور اُس صوفے پر کسی کو نہیں بیٹھنے دیتی جس پر میں بیٹھتا ہوں۔ اُس نے لاہور میں بھی مجھے T.Vپر دیکھ کر پہچان لیا تھا۔ جاوید کی جفاکشی علم کی دوستی اور خوش مزاجی اُس کی ترقی کی ضمانت ہیں۔

6…’’تنوؔیر اختر‘‘

نام ہی کی تنویر نہیں بلکہ علم اور اخلاق اور عادات کے لحاظ سے گھر کا اُجالا ہے۔ میرے سب بچوں کی ذہنی افتاد اور رجحان فنون کی طرف رہا ہے۔ ہر بچہ ایسا ہے کہ جس کی تقریر و تحریر میں ادب کی چاشنی ہے۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے۔ اس کی افادیت سے سب واقف ہیں

’’پر طبیعت ادھر نہیں آتی ‘‘

صرف دو بچے ایسے ہیںکہ جنہو ں نے کامیابی کے ساتھ سائنس پڑھی۔ اُن میں ایک سعید اور دوسری یہ لڑکی ہے۔ اس نے فرسٹ ڈویزن میں میٹرک ۔انٹر پاس کیا ہے اور پھر لاہور سے کسی سال فیل ہوئے بغیر۔ M.B.B.Sپاس کیا ہے۔ جو ذہین ہوتے ہیں وہ محنتی نہیں ہوتے مگر اس میں بیک وقت یہ دونوں اوصاف موجود ہیں۔ اس کو سائنس کے بعد اگر کسی چیز سے لگائو ہے تو وہ موسیقی ہے اور اس کا یہ کمال ہے کہ وہ ہمیشہ اس طرح پڑھتی ہے کہ ریڈیو بھی سنتی رہی اور پڑھتی لکھتی بھی رہی۔ یہ بہت مشکل بات ہے لیکن یہ صفت اُس کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ میں نے اُس کی شادی اپنے چچازاد بھائی کے بیٹے محمد مہدی سے کردی ۔ وہ بھی انتہائی قابل لڑکا ہے۔ میٹرک سے انجینئرنگ تک اس نے فرسٹ کلاس حاصل کی ہے۔ تنویر اور مہدی دونوں ہم مزاج اور ہم آہنگ ہیں اور اس حدتک ایک دوسرے سے منسلک اور منہمک ہیں کہ وہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے ملنے نہ ملنے کو کوئی اہمیت نہیںدیتے۔ ہمارے چچا زاد بھائی بھی مہینوں خط کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ اس لڑکے کو اپنے ماں باپ سے محبت نہیں ہے۔ بلکہ انہماک اور عدیم الفرصتی دونوں مل کر پانچ چھ ہزار روپیہ ماہوار کماتے ہیں اور مگن رہتے ہیں۔ میں قریب ہوں لہٰذا مجھ سے بے حد مانوس ہیں مجھے بھی بغیرملے کسی طرح چین نہیں آتا ۔ ان کے ایک پیاری سی بچی ہے وہ اسی گڑیا سے کھیلتے رہتے ہیں۔ تنویر دستگیر میں امام کلینک میں Resident Doctorہے۔ صبح کو لانڈھی میں Medical officerکے فرائض انجام دیتی ہے۔ مہدی National Constructionمیں Mechanical Enginearہے۔

7…’’عدؔیل اختر‘‘

میری اولاد میںعدیل اختر آخری لڑکا ہے جس کا نام میں نے عدیل اختر رکھا ہے۔ وہ میری صلاحیتوں کا نچوڑ ہے۔ اختر ی گلستان کا عطر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لڑکا پیدائش کے وقت ہی سے نیک فعال ثابت ہوا۔ اُس کی پیدائش سے ایک مہینے بعد ہی ہمیں ہندوستان میں چھوڑی ہوئی زمیندار ی اور مکان کا معاوضہ مل گیا اورہم شکارپور کے اس شیش محل میں منتقل ہوگئے جو آج تک شکارپور کی بہترین عمارت اور سندھ او ر بمبئ کے معماروں اور فنکاروں کا شاہکار ہے۔ ایک باغ بھی ہمیں ملا جو سندھوا کینال کے کنارے پر ہے اور نہائیت سبز وشاداب ہے اور اُس کے علاوہ ستر پچھتر ایکڑ زمین بھی ملی جس کی آمدنی نے ہمیں خد متگارسے پھر زمیندار بنادیا اور دماغ میں لاشعور وہ تمام شاہی نقوش اُبھر آئے جوایک مدّت سے سوئے ہوئے تھے۔ میری محبت اپنی اولاد میں صرف دوبچوں پر مرکوز رہی ہے۔ ایک اس لڑکے پراور دوسرے اپنی بڑی بیٹی مہر اختر پر۔ میں اس لڑکے کو کالج کی تمام تقریبات میں ساتھ رکھتا تھا۔ وہ میرے ساتھ ضلع سکھر کے مشاعروں میں اور ثقافتی جلسوں میں جاتا تھا۔ پاکستان کے تقریباً تمام شعرائے کرام اس کو جانتے او رپہچانتے ہیں۔ وہ انتہائی ذہین ہے اور حافظے کا بچپن ہی سے یہ عالم تھا کہ سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔ سکھر کے مشہور شاعر آفاقؔ صدیقی اپنی غزل کا ایک شعر درمیان سے بھول گئے تو اس نے ڈائس پر وہ شعر یاد دلادیا۔ یہ لڑکا بھرپور صلاحتیوں سے مالا مال ہے۔ میری Familyکے ممبران عرصے سے شکارپور چھوڑ کر کراچی میں آکر آباد ہونے کے لئے تڑپ رہے تھے۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ اس لڑکے کے میٹرک کرلینے کے بعد شکارپور چھوڑ اجائے۔ لیکن یہ لوگ کہاں ماننے والے تھے۔ ایک منظم پروگرام پر عمل کرنا ان کی سرشت ہی میں داخل نہیں ہے۔ میری عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاکر یہ لوگ کراچی منتقل ہوگئے اور مکان کو ایک محلے والی کے سپرد کردیا۔ کراچی میں آنا اس لڑکے کی صلاحیتوں کے لئے سمِ قاتل ثابت ہوا۔ پھر نویں میں داخلہ لینا پڑا۔ میں ایک اور بڑی غلطی کر بیٹھا تھا وہ یہ کہ اس لڑکے کی خواہش کے مطابق میں نے گاڑی خریدلی تھی جو دو سال کے بعد سعید صاحب کراچی لے آئے۔ یہ لڑکا شکارپور ہی میں گاڑی چلانا خفیہ طورسے میرے ڈرائیور سے سیکھ چکا تھا۔ کراچی آنے کے بعد کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانا شروع کردی۔ نویں کلاس کا بچہ جب ہر وقت گاڑی چلائے تو پڑھنے لکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر شادیوں اور مہمانداریوں اور چھوٹی بڑی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جو ہمارے چھوٹے سے مکان کی وسعت سے کہیں زیادہ تھا۔ لڑکیوں نے خودبھی گاڑی میں سفر کرنا شروع کردیا اور دن بھر جن سہیلیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ان کو لانے لیجانے کے لئے بھی گاڑی سڑکوں پر دوڑتی رہی اور یہ لڑکا اس گاڑی کو لئے پھرتا رہا۔ پھر اسی بھاگ دوڑ میں سب سے بڑی لڑکی مہر اختر کی شادی کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر جاوید اختر صاحب کی شادی ہوئی۔ انتظامات سوائے اس لڑکے کے اور کون کرتا۔ سعید بھی باہر تھا اور میں بھی۔ اس لڑکے کا ایک منٹ کے لئے قدم گھر میں نہیں رہتا تھا۔ شادیوں کے بعد مبارکبادیوں کی تقریبات شادیوں سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہیں۔ پھر یہ لڑکا بیمار ہوا اور اتنا بیمار ہوا کہ دس روز تک اسپتال میں رہا۔ اسپتال سے فارغ ہوتے ہی ایک مکان سے دوسرے مکان کی Shiftingمیں لگ گیا۔ غرض ایک سال توپہلے ضائع ہوچکا تھا ایک سال اور ضائع ہوا کیونکہ میٹرک کے امتحان میں Appearہی نہیں ہوسکا۔ اگلے سال Appearہوا تو سیکنڈ کلاس میں پاس ہوا۔ شکارپور میں رہتا تو ان تمام ہنگاموں سے دور رہتا اور فرسٹ کلاس Guaranteedتھی۔ فرسٹ ایئر میں آئے تو گاڑی اسی رفتارسے چلاتے رہے اور لوگ چلواتے رہے پھر بیمار ہوئے اور Tonsilsکے آپریشن کے سلسلے میں تقریباً آٹھ روز اسپتال میں رہے پھر سعید صاحب پر شادی کے ہنگامہ خیز انتظامات شروع ہوگئے جس میں اک نئے بنگلے کی تلاش اور گاڑی کی خریداری کے علاوہ ہزاروں انتظامات تھے۔ سب کچھ یہ لڑکا کررہا تھا۔ یہ ہنگامے ختم ہوئے تو جن کی شادی ہو چکی تھی ان کے بچے پیدا ہونے شروع ہوگئے اس سلسلے میں بھی یہ لڑکا دن رات اسپتالوں کے چکر کاٹتا رہا۔ پھر تنویر کی شادی کے انتظامات شروع ہوگئے۔ شادی سے پہلے اُن کو ڈسپنسری لانے لیجانے اور ڈسپنسری قائم کرنے چلانے اور پھر اسے فروخت کرنے کے سلسلے چلتے رہے۔ پھر شادی کے تمام انتظامات اس لڑکے نے تن وتنہا کئے اور پھر شادی کے بعد کی تقریبات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ غرض گھروالوں نے اپنے آرام وعیش کی خاطر اس لڑکے کے Futureکی ذرہ برابر پرواہ نہیں کی۔ یہ صاحب اپنے ذوق وشوق اور محبت کی وارفتگی میںخود قربانی پیش کررہے تھے تو دوسرے کیوں روکتے۔ اسطرح انٹر سائنس کا دوسرا سال گزرا۔ امتحان کے زمانے کے علاوہ میں نے کبھی اس لڑکے کو پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔میری اپنی دوسری حماقت یہ تھی کہ میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس لڑکے کا رجحان Artsکی طرف ہے Scienceدلوادیا۔ یہ لڑکا خودبھی Scienceلینا چاہتا تھا اس کو اپنے رحجانات کا علم نہ تھا۔ انٹر سائنس کا سال چل رہا تھا کہ اس لڑکے نے مجھ سے Automobile Engineering Classesمیں داخلے کی خواہش ظاہر کی ایک ہزار روپئے کی بات تھی میں نے داخل کرادیا اور اس طرح تین Coursesساتھ ساتھ چلے۔ سعید نے حالات کا صحیح جائزہ لیتے ہوئے امتحان سے پہلے ہی اُس کو شاہراہِ لیاقت کے Main Marketمیں Bussinessکے لئے تقریباً پچیس ہزار روپیہ خرچ کرکے ایک دفتر لے کردیا جس میں Telephoneبھی لگاہوا ہے اور اس لڑکے کے رجحانات کو پرکھتے ہوئے اسے Bussinessکی ترغیب دی۔ اب امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد اس نے دفتر کا چارج سنبھال لیا ہے او راپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر تیزی سے Bussinessکے میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ کام جو دوسرے لوگوں سے برسوں میں نہیں ہوتے اس نے خدا کے فضل سے ایک ہفتے میں انجام دیئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس Fieldمیں دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ انتہائی سوشل ہے اور Pushingطبیعت کا مالک ہے۔ اردو اور انگریزی خط بہت اچھا ہے۔ ضرورت سے زیادہ حساس اور جذباتی ضرورہے کیونکہ یہ اسکا خاندانی ورثہ ہے۔ رفتہ رفتہ ان نقائص پر حاوی آجائیگا۔ میں اسکے لئے نیک خواہشات رکھتا ہوں۔ میری اپنی ذاتی خواہشات کسی سے وابستہ نہیں ہیں۔ اس لڑکے کی منگنی میرے خاندان میں میرے چچا زات بھائی سبط حیدر صاحب کی لڑکی فردوس فاطمہ سے عین میری خواہش کے مطابق ہوئی ہے۔ ہم شادی کے لئے اس وقت کے منتظر ہیں جب وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے۔ انشأاللہ وہ وقت بھی آجائے گا۔

اب کچھ اس نئے ملک کے متعلق جو پاکستان کہلاتا ہے اور جس میں ہم تیس سال سے رہتے ہیں۔ یہ ملک پانچ صوبوں پر مشتمل تھا۔ بنگال ۔پنجاب۔ سندھ۔ سرحد اور بلوچستان بدقسمتی سے پانچوں صوبوں میں اپنی اپنی زبان اور اپنا اپنا Cultureہے اور طرہ یہ ہے کہ کسی صوبے کے کلچر سے رابطہ یا واسطہ نہیں ہے۔ ہم لوگ جو ہندوستان سے یہاں آئے ہیں ایک پانچواں کلچر لیکر آئے ہیں جسکو ہم اس بنیاد پر ہمہ گیر کلچر سمجھتے تھے کہ موجودہ پاکستان کے پانچوں صوبوں کے لوگ ہندستان ہی سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے اور وہاں وہ اردو بولتے تھے اور لکھتے تھے۔اب ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر صوبہ اپنی زبان اور اپنے کلچر کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔ اور اس کلچر کے لئے نفرت کے جذبات رکھتا ہے جس نے پاکستان بننے سے پہلے اُس کو زیورِ علم سے آراستہ کیا تھا۔ نہ اسلام خطرے میں ہے اور نہ قرآن کو کوئی خطرہ ہے اور نہ کوئی نظامِ مصطفوی چاہتا ہے نہ سوشلزم نہ مساواتِ محمدی۔ جھگڑا صرف کلچر کا ہے۔ زبان اور کلچر کی بنیاد پر بنگال پاکستان سے الگ ہوچکا اب چار صوبے باقی رہ گئے ہیں جن میں زبان اور کلچر کی بنیاد پر صوبائی عصبیت کے جھکڑ ے چل رہے ہیں۔ ان چاروں صوبوں کومتحد کرکے ایک پاکستان بنانے کی ترکیب ناکامیاب ثابت ہوچکی ہے۔مارشل لاء کی حکومت ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا حقیقت میں کلچر ایک ایسی ہمزاد ہے جو انسان کے ضمیر میں ہوتا ہے اور جس سے انسان کسی طرح الگ نہیں ہوسکتا۔سولہ سترہ سال انگلستان میں رہنے کے بعد جب کوئی سندھی تعلیم یافتہ تعلیم کی اعلیٰ ڈگریاں لے کر پاکستان واپس آتا ہے تو ثقافتی جلسوں میں عوام کے ساتھ ’’ ہو جمالو ‘‘ کی لوک دُھن پر رقص کرتا ہے ۔ بقول جوشؔ:

تاریخ جھومتی ہے فسانوں کے غول میں

بوڑھے بھی ناچتے ہیں جوانوں کے غول میں

سرحد میں خٹک ڈانس میں ڈاکٹرس اور انجینئر اور پروفیسرس شریک ہو جاتے ہیں ۔ محرم میں جلوس نکلتا ہے تو دہلی ، لکھنؤ ، امروہہ ، نوگانواں ، بلتستان اور کشمیر وغیرہ کی انجمنیں اپنے انداز سے نکلتی ہیں اور لوگ اپنے اپنے طرزاور اپنی دھنوں میں ماتم اور نوحہ خوانی کرتے ہیں۔۔ بوڑھے بچے جوان جاہل اور تعلیم یافتہ سب شریک ہو جاتے ہیں ۔ تیس سال گزر چکے مگرکسی نے اپنے کلچر کو نہیں چھوڑا ۔