پچھلے صفحے پر جائیں
صفحہ احباب کو بھیجیں
تھا جو سیرت میں سراپا صورتِ بستاں کی روح کیسے نکلی ہوگی تن سے ہائے اُس انساں کی روح موت بھی آئی اسے پردیس جیسے دیس میں میزباں بھی بن گئی دو روز کے مہماں کی روح ہوگیا حسرت زدا اب ختم عبدِ آرزو اب کہاں جان تمنا اب کہاں ارماں کی روح اڑ کے آئی تھی جہاں سے خاک جا پہنچی وہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے یاں عہدِ رواں پیماں کی روح برقیہ بجنور کا پڑھکر کراچی نے کہا کھینچ لی ہندوستاں نے آہ پاکستاں کی روح ہے وہ گھر کے عشرۂ ماہ محرم کا شہید تھی عزائے کربلا مرحوم کے ارماں کی روح ہوگیا بس وہ علیؑ مرتضی لکھ کر رواں لے گئی اپنے مورخ کو شہ مرداں کی روح سر پہ سرکارِ دو عالم سامنے مشکل کشا اس سرو ساماں سے نکلی بے سروساماں کی روح واجباتِ نوحہ گوئی کر گیا اخترؔ ادا وہ سمجھتا تھا اسی کو طاعتِ یزادں کی روح
کس خوشی سے اپنے گھر جاکر غمِ شبیر پر نذرِ در گہہ کردیا اس نے جسدِ قرباں کی روح ہے وہ کچھ ایسے بیاضِ میمنِ سادات میں جیسے ہوچھوٹی زمیں میں میر کے دیواں کی روح آج ہر خم شہر ساحل میں ہیں اشک غم رواں اب کراچی میں کہاں ہے محفل خنداں کی روح ہے مورخ کا یہ شائق سالِ تاریخ وفات گھٹ گئی اخترؔ رضا کے مرگ سے ریحاںؔ کی روح
اِک ستمبر کی سیاہ رات کہ ڈھلتی ہی نہیں یاد کی بند گلی سے وہ نکلتی ہی نہیں یہ ستمگر میرے سینے سے اُترتی ہی نہیں دونوں شمعوں کو فروزاں یوں کئے جاتی ہے تعزئیے غم کے وہ اشکوں سے بھرے جاتی ہے یادِ ماضی کے عزا خانے میں پھر اُسی شخص کو لے آتی ہے جس کی پرچھائیں ہوں میں، اور جو مرے سر پہ کبھی سایہ تھا یہ سبھی اُس کی عطا ہے وہی سرمایہ تھا! ہاں اِسی رات، اچانک کہیں بچھڑا تھا کبھی سوچتا ہوں کہ جو ہوتا وہ یہاں آج کی رات سارے اسباب تعیّش میری ہجر ت کے ثمر اُس کے قدموں تلے رکھ کے سپل ہو جاتا ذات کے کرب کا شاید یہی حل ہوجاتا اُس کی حسرت کو تمنائوں کو،آشائوں میں اپنی پلکوں سے اُٹھاتا پھر میں ایک احساسِ ندامت کو مٹا تا پھر میں سبھی کو چہ و بازار نئی دنیاکے اس مورّخ کو دکھاتا پھر میں اُس کی آنکھوں سے چُرا کر کچھ خواب اپنی تخیل کی دُنیا میں بساتا پھر میں !
( والد مرحوم کی برسی 29ستمبر پر!)
جاویدؔ زیدی
یاد کو ان کی بھولنا چاہا، یاد مگر وہ آئے بہت ان کو دیس میں چھوڑ تو آئے لیکن ہم بچھتائے بہت
جب بھی دیکھے محفل، ہنستے بستے خوش خوش چہرے آج نہیں کچھ لوگ جو ہم میں، یاد ہمیں وہ آئے بہت
چڑھتے سورج کی وہ پجاری ساتھ تھی خلقت ان کے ساری دن ڈھلنے کا وقت جو آیا، دوست تھے کم اور سائے بہت
علم و ہنر کی بات کبھی جو نکلی اُس محفل میں یارو دیکھا ہم نے اپنی جانب، دیکھ کےہم شرمائے بہت
خواہش اپنی ظاہر اس پر کیوں کرتے ہو یار عدؔیل جس کی دین کا ہے یہ طریقہ، دے تو کم ترسائے بہت
عدؔیل زیدی 26ستمبر92ء
بزم میں تیرے نہ ہونے کا سوال آیا بہت تو نہیں تھا آج تو تیرا خیال آیا بہت
دیکھتے ہی دیکھتے شاہوں کی شاہی چھن گئی با کمالوں پر زمانے میں زوال آیا بہت
جہل کے سائے میں گہری نیند ہم سوتے رہے ہاں اذاں دینے کو مسجد میں بلال آیا بہت
سایہء آسیب ہے مت جانا تم چوتھی طرف اس طرف جو بھی گیا، واپس نڈھال آیا بہت
تیری جانب آرہا ہوں روح کی تسکیں کو میں حسرتیں دل کی میں دنیا میں نکال آیا بہت
ہم چٹانوں کی طرح باہر سے ساکت تھے عدؔیل پھر بھی اکثر ذات میں اپنی ابال آیا بہت
عدؔیل زیدی ستمبر92ء
غم کوئی ساتھ نہیں آتا، تم ہوتے ساتھ تو اچھا تھا کوئی تو دل کو بہلاتا، تم ہوتے ساتھ تو اچھا تھا
اس تنہائی کے جنگل میں ہم کس سے دل کا حال کہیں کچھ اپنا وقت گزر جاتا، تم ہوتے ساتھ تو اچھا تھا
تم فخر سے ہر اک محفل میں ہم سب کی بات کیا کرتے کچھ اپنا بھرم بھی رہ جاتا، تم ہوتے ساتھ تو اچھا تھا
ہم جگ سے تمھارا ذکر کریں، اور تم ہی ہمارے پاس نہیں کچھ دل کا بوجھ اتر جاتا، تم ہوتے ساتھ تو اچھا تھا
ہاں دن تو گزرتا ہے جو توں، یاں دنیا کے ہنگاموں میں یہ شام کا وقت بھی کٹ جاتا، تم ہوتے ساتھ تو اچھا تھا
11نومبر 96ء عدؔیل زیدی
جو فضائل عمر بھر لکھتے رھے پڑھتے رھے خلد میں وہ ذاکر آ ل پیمبر جا بسے مدح اہلبیت کی دنیا کو دے کر روشنی پنجتن کے نور کے قدموں میں اخترجا بسے
میر نظیر باقری
1 اکتوبر، 2020ء