پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید

یہ ہمارے خاندان کی خوش نصیبی کہ پروفیسر سید اخترؔ رضا زیدی جیسے نابغہء روزگار ، ساداتِ میوۂ من(میمنؔ)، تحصیل کر تپور ، ضلع بجنور میں 21مئی1917ء میں پیدا ہوئے،ہائی اسکول امروہہ، انٹر آرٹس اور بی اے آنرزلکھنو یونیورسٹی اور پاکستان آکر تاریخ میں ایم اے اور محکمہ تعلیم میں بی ٹی کی خصوصی سند لی۔25 برس دشت مہران میں مختلف کالجوں میں پروفیسر رہ کر 1975ء میں ریٹائر ہوئے اور 1979ء میں قیدِ حیات سے آزاد ہوئے۔ ایک پیدائشی شاعر و ادیب ذوقِ تاریخ کے ہاتھوں مجبور ہوئے کہ عالمِ امکان کے واقعات کو تمام ہی ایک عالم و محقق کی نگاہ سے پرکھتے رہے۔

"A Short History of Civilization"، "خلافت کا عروج و زوال"، اور پھر تاریخِ اسلام پر ان کی معرکۃ آلاراء آخری تحقیق "آئینہ تاریخ۔اسلام اور علیؑ" "The Real Face : Islam & Ali" سند کے طور پر قرطاسِ علم پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوگئی۔

تاریخ دنیا پر تحقیق بچوں کا کھیل نہیں، عالموں اور اہلِ دل کا کام ہے۔بقول شخصے سو اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔عقیدے کی خوش خیالی سے سچ کے زہر تک پہنچتے پہنچتے موت کے پسینے میں قلم بھیگ جایا کرتا ہے۔

پروفیسر صاحب کی دلچسپ تحریر نے تاریخ کو کہانی بنا کر تحقیق کو شاعری جزوپیغمبری کے مقام تک کچھ اس انداز میں پہنچایا ہے کہ:

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

تشنگی علم کو مطالعہ تاریخ سے بجھا ئیے۔پرانی نسل کے لئے اردو ایسی خوبصورت زبان جو ہندوستانی ادب کا تاج محل ہے اور نئی نسل یا نئی دنیا کے لئے انگریزی جیسی بین الاقوامی زبان میں"آئینہ تاریخ:اسلام اور علی" "The Real Face : Islam & Ali" دستیاب ہے۔

جاویدؔزیدی

A Rare Research

Professor Syed Akhtar Raza Zaidi, a genius of our family, was born in 1917, Memon Sadaat, Bijnor, India. He completed his high school from Amroha, intermediate and B.A. Honors from Lucknow University and Master's in History from Sindh University, Pakistan.

He was a born poet and a prolific writer with passion for history. Professor Zaidi devoted all his life researching and writing about world and Muslim history. Some of his books are:

Professor Zaidi’s Noha’s are still being recited all over India and other countries during Muharram.

divider

پروفیسر سید اخترؔ رضا زیدی بہترین مدرس ، شاعر ، ادیب اور مورخ تھے۔

ولادت 21مئی 1917ء ۔والد: محمد صادق،مقام : میمن سادات ضلع بجنور انڈیا ۔پرائمری تعلیم گھر پر والد نے کی۔ میٹریکلوشن۔ہائی اسکول امروہہ،انٹر آرٹس۔شیعہ کالج لکھنو۔ 1937ء میں لکھنو یونیورسٹی سے B.A. (Hons)کیا۔1937ء میں شادی کی۔محرم میں عزاداری کا اہتمام۔انجمن حسینہ کے بانی۔نوحوں کی انجمن کے صاحبِ بیاض۔تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی مجبوری۔ سندھ کے مختلف کالجوں میں ہسٹری پڑھائی ،پرنسپل رہے۔کالجوں میں ادبی محفلیں ، مشاعرے اور موسیقی کی شاموں کا شوق ۔صبح و شام نوکری کے ساتھ ساتھ تکمیلِ تعلیم کے کوشاں۔ بچوں کو تعلیم دلوانے کے ساتھ خود بھی ہسٹری میں ڈبل ایم اے کیا۔اولاد: ماشاء اللہ چار بیٹھے اور تین بیٹیاں ہیں۔سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔بیٹیاں مہرؔ رضا، شمیمؔ زیدی، تنوؔیر زیدی، بیٹے ڈاکٹر عروؔج اختر زیدی،سعیدؔ زیدی، جاویدؔزیدی اور عدؔیل زیدی۔اس وقت پوتے پوتیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور میرے علاوہ سب عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔اتنا سب کچھ کرتے ہوئے بہت سی کتابیں لکھیں۔

(1)A Short History of Civiization(جو سندھ کے Syllabusمیں شامل رہی) (2)خلافت کا عروج و زوال

(3) کلیمِ کربلا (نوحوں کا مجموعہ) "اے ثانیء زہرا"بہت مشہور ہوا ہے۔مجلسوں میں بہت پڑھا جاتا ہے۔

(4) جیومیٹری پر Booksلکھیں نہ معلوم کیوں ان کا Subjectنہیں تھا۔ (5) علی ابن ابی طالبؑ

یہ اجمال احوال میرے والد محترم کا جن کا انداز ِ بیان بھی ایسا تھا کہ

"وہ کہیں اور سنا کرے کوئی"

ان کی شخصیت اور کاموں کی رنگا رنگی اور گونا گونی پر تو داستانیں رقم کی جاسکتی ہیں۔ان کی زندگی نےا ن سے وفا نہ کی جب وہ عشق ِ بستی میں میمن سادات گئے پھر مٹی نے انھیں واپس نہیں آنے دیا۔23ستمبر1979ء کو ان کی وفات ہوئی۔

آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

شمیمؔ زیدی

divider

ماہ نامہ تجلّی 1967ء

سید اخترؔ رضا زیدی ولد سید محمد صادؔق زیدی میمن سادات ضلع بجنور یوپی بھارت کے ایک معزز اور زمیدار گھرانے میں بتاریخ 21مئی1917ء میں پیدا ہوئے۔بی ۔اے۔ آنرز لکھنو یونیورسٹی ،ایم ۔اے۔ مسلم ہسٹری ، ایم۔اے۔جنرل ہسٹری سندھ یونیورسٹی ،بی ۔ٹی۔کراچی یونیورسٹی سے کیا ۔اپنی تعلیمی خدمات کی بدولت ڈبلیو ای ایس درجہ اول کا اعزاز گورنمنٹ سے حاصل کیا۔18 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کی اور 1949ء سے شکار پور میں آباد ہیں۔آج کل گورنمنٹ کالج شکار پور میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔آپ اچھے ادیب، مورخ اور غزل گو شاعر ہیں۔تقریباََ 14 سال کی عمر سے شعر و سخن کی مشق جاری ہے۔اصلا ح کسی سے نہیں لی۔عشقِ سخن اور مطالعہ دین نے کلام میں پختگی پیدا کردی۔آپ کا کلام اخبار سر فراز لکھنو میں 1934 ء سے کئی عرصے تک شائع ہوتا رہا ہے۔ایک مجموعہ کلام موسوم کلیمِ کربلا انڈیا میں تقریباََ 3۔1942ء میں شائع ہوا تھا۔دوسرا مجموعہ "صبح صادق"کتابت کی بوبت تک پہنچا تھا کہ تقسیمِ پاکستان عمل میں آئی جو طبع نہ ہوسکا۔گورنمنٹ کالج شکار پور کے میگزین میں آپ کے اشعار اور مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔1957ء میں چیف ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔43۔1934ء رسالہ عالمگیر لاہور 1935ء رسالہ"آج کل"دہلی میں بھی آپ کے مضامین اور اشعار شائع ہوتے رہے ہیں۔گورنمنٹ کالج جیکب آباد کے میگزین کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ہیں اور اس میں بھی مضامین شائع ہوئے ہیں۔

آپ نے تاریخ تہذیب تمدن بزبان انگریزی لکھی ہے جو تقریباََ 650 صفحات پر مشتمل ہے اور 1952ء میں شائع ہوئی ہے۔آپ کی دوسری تالیف موسوم"خلافت کا عروج و زوال"بزبان اردو 450 صفحات پر مشتمل ہے 1963ء میں شائع ہوئی ۔دونوں کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔آپ نے تقریباََ تمام شعراء کا کلام پڑھا ہے جن کا تذکرہ تاریخ اردو ادب میں آیا ہے۔آپ میرؔ تقی میر، نذیرؔ اکبر آبادی، میرانیسؔ، دبیرؔ، مرزا غالبؔ سے زیادہ متاثر ہیں۔عہدِ جدید کے شعراء میں علامہ اقبالؔ،جگرؔ مراد آبادی، جوشؔ ملیح آبادی سے اپنے زمانہ طالبعلمی ہی سے متاثر ہیں۔آپ میرؔ تقی میر کو بابائے غزل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔مرزا غالبؔ کے لئے فرماتے ہیں کہ اس نے غزل کا انگ انگ سنوارکر اس کو دیدہ زیب جنت خیال اور فرودشِ گوش بنا دیا ہے اور جگر مراد آبادی نے غزل کو دلہن کی طرح سجا کر رونقِ محفل بلکہ شمع محفل بنا دیا ہے۔انیسؔ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ انیسؔ نے مرثیے کی روح میں رزم و بزم کے بیان میں قصیدہ، غزل، مثنوی نظم وغیر ہ کو ایک ہی جگہ سمو کر مرثیے کو تمام اصناف سخن کا آئینہ دار بنا دیا ہے اس کے بعد موصوف جوشؔ ملیح آبادی کے متعلق تقم طراز ہیں کہ جوشؔ محاکات میں اپنی نظیر نہیں رکھتا ہے۔جوشؔ کے الفاظ میں شان و شکوہ کے علاوہ ایک ترنم ہےجو شعر میں ہونا چاہئے ۔جوشؔ کا کلام آورد سے خالی ہے آمد ہی آمد ہے اس لئے وہ شاعر ہے ۔اب اقبالؔ کے متعلق سنیے،اقبالؔ دورِ جدید میں ثور اسرافا کی حیثیت رکھتے ہیں وہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا ہوئےاور مقصد تھا قوم کی بیداری جو انہوں نے پورا کیا وہ شاعر کم اور مفکرو مبلغ زیادہ تھے اپنے رنگ میں ان کا اب تک کوئی حریف نہیں اور نہ پہلے کوئی۔

اخترؔ صاحب نے جس زرف نگاری سے تبصرہ فرمایا ہے وہ بلا شبہ قابل ستائش ہے مگر تعجب ہے انہوں نے غزل کے سلسلے میں حسرت موہانی اور اصغر گونڈوی، فانی بدایونی جیسے بلند و بالامرتبت غزل گو شعراء کو نظر انداز کردیا ۔ نہ معلوم کیوں یہ میں باور کر سکتا کہ موصوف نے ان شعراء کے کلام کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔البتہ ہوسکتا ہے کہ محترم کی مصروفیات کی وجہ سے اس جانب توجہ نہ جاسکی ہو ورنہ مطالعین اور پڑھے لکھے قائدین ان ہستیوں کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔

اخترؔ صاحب اصناف سخن میں غزل اور نظم ، قطعہ ، خمس، مسدس کو زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ اوصاف سخن اصناف پر حاوی ہیں قصیدے سے موصوف نے نفرت اظہار کیا ہے خواہ وہ خاقانی یا انوری ہی کے کیوں نہ ہوں۔موصوف صاحبِ علم ہیں ان کے متعلق یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ موصوف نے خاقانی اور انواری کو پڑھے اور سمجھے بغیر ہی ان سے اظہارِ نفرت کیا ہے البتہ یہ بات ضرور پائی جاتی ہے کہ موصوف کو قصیدہ سے لگائو نہیں رہا ہے اور نہ اس خصوص میں موصوف کا مطالعہ وسیع رہا ہے ورنہ نہ قصیدے کے بارے میں موصوف جیسا صاحبِ علم آدمی ایسی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا۔

جدید شاعری کے متعلق اخترؔ صاحب فرماتے ہیں کہ اب نئی شاعری میں بھی کچھ اصول بنتے جاررہے ہیں اور معنویت پیدا ہوتی جارہی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ جدید شاعری میں صرف ان شاعروں سے زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے جو طبع موزوں کے مالک ہیں اور جدید و قدیم اصول پر شعر گوئی پر قادر ہیں۔جس دن جدید شاعری غیر متوازن طبائع کے ہاتھ آگئی اور متوازن طبائع نے شاعری سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو وہ جدید شاعری کی موت کا دن ہوگا۔فیض احمد فیضؔ، ساحرؔ لدھیانوی، ن۔م۔راشدؔ، مصطفیٰ ؔ زیدی طبع موزوں کے مالک ہیں اور یہی حضرات جدید شاعری کی قندیل کو قدیم شاعری کے روغن سے روشن کئے بیٹھے ہیں۔

شاعروں کے سلسلے میں اخترؔ رضا صاحب رقم طراز ہیں۔ادب شاعری موسیقی اور دوسرے فنون ِ لطیفہ دور انحطاط اور عہد عیش و عشرت میں ترقی کرتے ہیں یہ دور نہ شاعروں کا ہے نہ مشاعروں کا۔یہی وجہ ہے کہ آج کل مشاعروں کی محفلیں ای مقصد کے تحت منعقد ہوتی ہیں جن مقاصد کے تحت پرانے زمانے میں قوالوں کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف تفریحی ہوا کرتے ہیں۔تسکینِ ذوق سلیم اور ترقی ادب سے ان محفلوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔بلند پایہ شاعر جو بدقسمتی سے اچھے گلوکار نہیں ہوتے مشاعرون سے صرف اس لئے جان چراتے ہیں کہ وہاں صرف ترنم کی داد ملتی ہے کلام کی نہیں اور اگرترنم کے ساتھ ساتھ شاعر صنفِ نازک سے بھی تعلق رکھتا ہو تو پھر سونے پر سہاگہ مشاعروں سے صرف اک خارجی فائدہ یہ ہے کہ وہ کسی مقصد کے تحت بھی منعقد کرائے جائیں۔کم ازکم ہماری پرانی روایات رہین گی اور زبان کی تبلیغ بُرے بھلے طریقے سے ہوتی رہے گی۔اچھے طریقوں سے کم امکان ہے کیونکہ اچھے شاعر اول مشاعروں میں آتے ہی نہیں اور اگر آتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے آتے ہیں ۔

جب اٹھ گئے بازار سے گاہک تو ہم آئے

اخترؔ صاحب اپنی تحریر میں تسلیم کرتے ہیں کہ مشاعروں سے کم ازکم پرانی روایات قائم رہیں گی اور اچھے نہ سہی برے طریقوں سے زبان کی تبلیغ ہوتی رہے گی۔اچھے طریقوں کی نفی غالباََ یوں کی گئی ہے کہ مشاعروں میں اچھے شعراء شرکت نہیں کرتے ہیں یا کم شریک ہوتے ہیں ۔یہاں مجھے اخترؔ صاحب سے اختلاف ہے کیونکہ آئے دن مشاعروں کی رودادیں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے بلند معیار شعراء مشاعرون میں شرکت کرتے اور با معاوضہ شرکت کرتے ہیں ۔میرے خیال میں تو بعض بڑے شعراء نے مشاعروں کو شرکت یا شعر خوانی کو پیشہ بنالیا ہے جسے پچھلے شعراء پسند نہیں کرتے تھے۔بہرحال بقول اخترؔ صاحب اگر برے طریقوں سے بھی زبان کی تبلیغ ہوتی ہے تو اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔زیادہ سے زیادہ برے طریقوں کو اچھے طریقون میں تبدیل کیاجاسکتا ہے اس کے علاوہ تاریخ آداب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مشاعروں نے ہی شعراء کے کلام کو جلا بخشی ہے اور ان کو احساسِ شعور ترقی بخشا البتہ یہ مغربی مزاج و ماحول سے متاثر ذہنوں کے لئے انوکھا مشغلہ ہے۔

اخترؔ صاحب قطعہ غزل و نظم کہتے ہیں اور مشاعروں میں نہیں پڑھتے ہیں البتہ مشاعروں میں شرکت ضرور کرتے ہیں۔بعض وقت صدارت بھی کی ہے لیکن اپنا کلام نہیں سناتے ہیں کبھی کبھی سنانا ہی پڑا تو تحت اللفظ سناتے ہیں خوش گلو یا گلو کار نہ ہونے کی شکایت ہے آپ نے کم و بیش دو ہزار اشعار کہے ہوں گے۔

فارسی ، اردو ، انگریزی زبانوں پر قدرتِ گوئی حاصل ہے مگر شعر گوئی کا ملکہ صرف اردو ہی میں ہے۔مذہب اثناء عشری سے تعلق ہے۔بڑے ہی شگفتہ مزاج وسیع النظر اور بااخلاق آدمی ہیں۔جنگ ستمبر 1966ء میں اس سب ڈویزین کی ٹریننگ سینٹر کے انچارج تھے اور اپنے دفاعی احباب کو قابلِ قدر لیکچر دیے ہیں آپ کے زیر تربیت سینٹر سے کئی دوستوں نے امتحان دیکر کامیابی حاصل کی ہے بہر حال آپ کی علمی و ادبی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔