پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

اسلامی علوم و معارف اور علمی و تقافتی افکار و عقائد کا ترجمان
شمارہ 203-204جنوری تا جون 2007

ہندوستان میں سنت ِعزاداری محرم

چیف ایڈیٹر
محمد حسین مظفری

خانہ فرہنگ جمہوری ایران
18 تلک مارک، نئی دہلی۔110001
فون : 34،33،232 23386 فیکس:233875

divider

میمن میں عزاداری
سید اسد حیدر زیدی

موضع میمن سادات ،مغربی یوپی کے ضلع بجنور کی تحصیل نجیب آباد میں واقع ایک شیعہ بستی ہے۔یہ بجنور ، نجیب آباد قومی شاہ راہ پر بجنور سے 25کلو میٹر اور نجیب آباد سے 14 کلو میٹر اور درگاہ نجف ہند جوگی پورہ سے 24 کلو میٹر دور ہے۔

اس بستی کے مورث اعلیٰ سید اشرف علی الواسطی نے اس کو 1388 میں بعید سلطان فیروز شاہ تغلوق نے آباد کیا تھا۔سادات زیدی الواسطی سید ابو الفرح واسطی کی نسل سے ہیں جو عراق کے شہر واسط میں رہتے تھے اور اسی کی رعایت سے واسطی کہلاتے تھے۔حضرت زید شہید کے چھوٹے صاحبزادے جناب محمد عیسیٰ کو خلیفہ مامون رشید نے واسطہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔مامون کی موت کے بعد واسط ایک خود مختار ریاست کی حیثیت اختیار کر گیا ۔انہی علی کی آٹھویں پشت میں ابو الفرح والی واسط تھے۔جب سلطان محمود غزنوی ہندوستان پر حملوں کے لئے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کر رہا تھا لیکن مطمئن نہیں تھا اس وقت اسے خواب میں بشارت ہوئی کہ ابولافرح واسطی سے مدد لو۔ادھر جناب ابو الفرح واسطی کو بھی عالمِ خواب میں سلطان کی مدد کرنے کا حکم ہوا۔ سلطان محمود ان سے ملا اور وہ اپنے 12بیٹوں میں سے 11 کو ساتھ لیکر ہندوستان کے حملوں میں اس کے شریک ہوگئے۔999ء یا 1000ء سے لے کر 1025ء بنی سومتاتھ کی فتح تک سلطان محمود غزنوی کے مددگار رہ کر آپ نے پنجاب اور سندھ وغیرہ علاقوں میں حکومت کے نظام کو درست کرنے اور اس علاقے میں فوجی بالادستی قائم رکھنے کے لئے اپنے چار بیٹوں کو ہندوستان میں ہی رہنے کا حکم دے کر باقی کو واپس واسط لے گئے اور پھر 1055ء میں انتقال کیا۔ہندوستان میں انہی چار بیٹوں 1-ابوالفرح 2۔ابوالفضائل 3۔نجم الدین 4۔سید دائود کی نسلیں سادات زیدی الواسطی کہلاتی ہیں۔میمن کے مورث اعلیٰ ابو الفرح کی نسل سے ہے۔شاہ اشرف علی کے والد جناب عارف علی شاہ حضرت نظام الدین اولیاء کےہم عصر تھے اور زیادہ وقت ان کے ساتھ دہلی میں گزارتے تھے اور وہیں پر ان کا انتقال ہوا، اور گاہ مرداں (موجودہ جو رباغ، نئی دہلی ) میں ان کا مزار ہے۔ان کے انتقال کے بعد جانشنی کے سلسلے میں ان کے تین بیٹوں میں تنازعہ ہوا اور پہلے بیٹے سید حسین کا قتل ہوا۔الزام اشرف علی صاحب کے سر آیا اور آپ بادشاہ فیروز تغلق کے خوف سے روپوش ہو کرگھومتے پھرتے اس مقام تک آپہنچے جہاں آج کل میمن سادات آباد ہیں۔یہ ایک گھنا جنگل جنگل تھا جہاں کول بنجارے رہتے تھے۔یہاں اشرف علی صاحب فقیر کے بھیس میں مصروف ِ عبادت تھے کہ ایک دن اس علاقے کے حاکم زمان خان کے آدمیوں نے دیکھا اور حاکم کو اطلاع کی۔حاکم نے خود آپ سے ملاقات کی اور سارا واقعہ سن کر راہ ہمدردی آپ کو یہ علاقہ بیع کر کے یہیں بسنے کے لئے اصرار کیا۔آپ نے منظور کر لیا۔اسی دوران زمان خان کے جاسوس آپ کی ریاست دھر سونواز پور واقع پنجاب سے خبر لائے کہ سید حسین کا قاتل پکڑا گیا اور آپ الزام سے بری ہیں اور بادشاہ فیروز تغلق کا انتقال ہو چکا ہے۔چنانچہ آپ نے کچھ جنگل کٹواکر ایک بہت بڑا مکان بنوایا جس کو گڑھی کے نام دیا گیا۔پھر آپ وطن اہل وعیال کو لینے گئے۔بڑے بھائی محمد نواز کے اصرار پر بھی آپ وطن میں نہ رکے اور اپنے نئے مسکن میں آکر بس گئے۔یہاں حاکم زمان خان نے ان کی سہولت کے لئے کچھ جلا ہے۔کمہار اور دوسرے کاریگر قسم کے لوگ تحفے کے طور پر دیئے جس کی نسلیں آج بھی میمن میں آباد ہیں۔آپ کی نسل میمن میں 2 بیٹوں سید برہان شاہ اور سید علی سے چلی آپ کو اس علاقے میں امن نصیب ہوا اس لئے آپ نے اسے" مامن" کہا جو بعد میں کثرت استعما ل سے میمن ہوگیا۔

شاہ اشرف کی بنا کر دہ مسجد میں، جسے اب جامع مسجد کہتے ہیں ،ان کا مزار واقع ہے اور حوض کے کنارے بنا ہوا ہے۔اس مسجد کی حال ہی میں بڑے پیمانے پر مرمت،وسعت جناب نواب حیدر مرحوم کی محنت و کوشش اور مومنین بستی کے اشتراک و تعاون سے بڑے خوبصورت انداز میں ہوئی۔شاہ اشرف کی مسجد کے بعد اور بھی کئی مساجد عالم وجود میں آئین اور بفضل خدا سب آباد ہیں۔

اس دور میں شیعہ قوم اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی اور عزاداری کے معاملے میں بہت حد تک پوشیدگی سے کام لیتی تھی۔مثال کے طور پر فیروز تغلق کے ذاتی دستاویزات سے ایک اقتباس اسمتھ(Esmith)نے اپنی کتاب " دی آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا" (The Oxford history of India) میں نقل کیا ہے۔جس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہیں:

"فرقہ شیعہ جنہیں روافض بھی کہا جاتا ہے انہوں نے بذریعہ تبلیغ تبدیلی مذہب کرانے کی کوشش کی۔میں نے ان سب کو دبوچ لیا اور ان کی خطائوں کی سزا دی۔ان میں جو زیادہ جو شیلے(سرگرم) تھے ان کو سزائے موت دی۔باقع ماندہ کو لعنت ملامت کے بعد برسرِ عام سزا دینے کی تنبہہ کی۔میں نے سر عام ان کی کتابوں کو نذرِ آتش کردیااور بفضل تعالیٰ اس فرقے کا اثر مکمل طور پر زائل کر دیا گیا" ۔

ایسے پر آشوب دور میں عزاداری کا بڑے پیمانے پر اور آزادی کے ساتھ انجام دیئے جانے کا تصور ہی ممکن نہیں تھا۔

شروع میں شاہ اشرف علی صاحب نے مکان موسومہ گڑھی میں ایک حصہ امام بارگاہ کے لئے مخصوص کردیا۔کنی پشتوں کے بعد اب ان کی اولاد نے اپنی ضرورتوں کے تقاضے سے الگ الگ مکانات تعمیر کروائے تو چند امام باڑے گھروں ہی میں قائم کئے گئے جن میں الگ الگ وقتوں میں مردانہ اور زنانہ مجالس برپا ہونے لگیں۔الگ سے زنانہ امام باڑے کافی عرصے تک وجود میں نہیں آئے۔

اپنی شان اور وسعت کے اعتبار سے جو پہلا پختہ اور دو منزلہ امام باڑہ اہلیانِ بستی کے علم میں ہے وہ چھتّہ کہلاتا ہے۔اس میں اوپر کی منزل میں زنانہ مجالس ہوتی تھیں اور وہیں سے خواتین مردانہ مجالس بھی سنتی تھیں۔آج یہ امام باڑہ منہدم صورت میں ہے۔بزرگان بستی کے قول کے مطابق اس کے انہدام کو بھی دو سو برس سے اوپر ہوگئے ہیں۔بعد ازاں بہت مدت تک اس امام باڑے سے متصل بارہ دری میں مجالس ہوتی رہیں۔یہ بارہ دری سید محمد میر نے بنوائی تھی۔ان کے کوئی بیٹا نہیں تھا اس لئے ان کے بعد اس میں عزاداری کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ان کے داماد فضل علی صاحب پر آئی جو بیڑھا مظفر نگر سے تعلق رکھتے تھے۔اس امام باڑے کی ضریح ابھی تک موجود ہے جو دیوان خانہ میں 1766ء سے رکھی ہوئے ہے۔998ء میں سید صابر رضا جو سید فضل علی صاحب کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے اس ضریح کی مرمت کروائی۔1766ء میں مرکزی امام باڑہ دیوان خانہ وجود میں آیا ۔یہ فضل علی صاحب نے بنوایاتھا۔پہلے محرم کے سارے جلوس نہیں نکلتے تھے۔لیکن اب سارے جلوس یہاں پر ختم ہوتے ہیں۔روزِ عاشورہ کے اعمال بھی یہیں پر کروائے جاتے ہیں۔

زنانی مجالس کے لئے احاطے کے اندر ایک عمارت موسومہ " بنگلہ" 1889ء میں تعمیر ہوئی ۔یہاں کا تعزیہ 1919ء میں نجیب آباد کے عہد المجید صاحب نے بنایاتھا۔1909ء میں ایک دوسرا امام باڑہ حویلی حکیمان میں تعمیر ہوا جو " کوٹھی" کے نا م سے منسوب ہے۔یہ سید آغاحسن ابن سید صدق علی نے تعمیر کروایا تھا۔سید آغا حسن ، بانی میمن سید شاہ اشرف کی گیارہویں پشت میں تھے۔کوٹھی میں زنانی مجالس ہوتی ہے۔یہ مجالس ایک منّت کی ہیں جو سید آغا حسن کی والدہ نے مانی تھی۔

ایک اور مرکزی امام باڑہ(بڑا امام باڑہ) واقع نزد حوض ، خاندان شاہ جی والان کی بعض ممتاز و مقتدر ہستیوں کے تعاون سے 1940ء میں وجود میں آیا۔اس امام باڑے کے بارے میں ایک دلچسپ بات مشہور ہے۔وہ یہ کہ اس تعمیر چٹکی فنڈ سے ہوئی تھی یعنی لوگ روز مٹھی مٹھی آٹا جمع کرتے تھے پھر دو چار دن بعد اس کو بیچ کر پیسے جمع کرتے تھے۔اس طرح سبھی لوگوں کے اشتراک سے یہ امام باڑہ تعمیر ہوا اس امام باڑے میں مجلسیں تو کبھی کبھی ہی منعقد ہوتی ہیں مگر یہاں محرم کے تبرکات محفوظ کئے جاتے ہیں جن کو محرم کی چاند رات سے قبل متعلقہ امام باڑوں میں سجا دیا جاتا ہے۔ماضی قریب تک صبح سے رات تک 5مردانہ مجالس اور دو زنانہ مجالس عشرۂ محرم میں ہوتی تھیں۔صبح کی مردانہ مجالس انصار ریان" نوردیوں" کے امام باڑے میں ،دوسری ڈاکٹر غلام مرتضیٰ مرحوم کی طرف سے ان کے بہنوئی ڈاکٹر ابن حسین کے گھریلو امام باڑے میں تیسری شام و انصاریان کے امام باڑے میں ، چوتھی جناب شفیق الحسن صاحب کے امام باڑے نزد بڑا تالاب میں اور آخری مجلس شب میں مرکزی امام باڑہ دیوان خانہ میں جناب علی اختر مرحوم کے انتظام و نگرانی میں ہوتی تھی۔دراصل یہ امام باڑہ ان کے بزرگوں کو ہی بنا کر دہ ہے۔ زنانہ مجالس مذکورہ امام باڑوں کے علاوہ احاطہ اور حکیموں کی حویلی میں ہوتی تھیں۔

عشرۂ محرم میں بستی سے باہر مقیم ملازمت پیشہ اور طلباء حضرات کے گھر آجانے کے سبب سے پڑھنے والوں کی تعداد اتنی ہوجاتی تھی کہ پڑھنے والوں کو کافی نہ پڑھنے والوں کو کافی نہ پڑھ پانے کی شکایت رہتی تھی۔اس وجہ سے بیرونی ذاکرین و علماء حضرت کو عشرۂ محرم میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔البتہ 8ربیع الاول تک کی عزاداری کے دوسرے عشروں میں باہر کے ذاکرین کرام کو مدعو کیا جاتا تھا۔گذشتہ پچاس برسوں کے درمیان میمن میں ذاکری کرنے والے بعض علماء یہ ہیں:

1۔جناب حجۃ الاسلام سعادت حسین صاحب

2۔مولانا حافظ کفایت حسین صاحب

3۔حجۃ الاسلام کلب حسین صاحب

4۔مولانا سید محمد دہلوی صاحب

5۔سید العلماء مولانا علی نقی(نقّن) صاحب

6۔حجۃ الاسلام مولانا مرتضیٰ حسین صاحب

7۔علامہ ابن حسن نو نہروی صاحب

8۔علامہ سید عدیل اختر صاحب پرنسپل مدرسہ الواعظین

9۔مولانا شمس الحسن صاحب

10۔حجۃ الاسلام مولانا کلبِ عابد صاحب

11۔مولانا طاہر جرولی صاحب

12۔حجۃ الاسلام مولانا شمیم الحسن صاحب بنارسی

بستی کے قابل فخر علماء جناب محمد جعفر صاحب قبلہ اور مولانا رضی حیدر مرحوم تو باوجود اپنی بیرونی مصروفیات کے وقتاََ فوقتاََ اہلیان وطن کو مشکور فرماتے تھے۔آج بھی ماشاء اللہ بہت سے نوجوان سادات اور انصاری برادری کے برادران علم دین میں فارغ التحصیل ہو چکے ہیں اور بہت سے مختلف دینی مدارس میں مصروف تعلیم ہیں۔

نوحے اور سلام وغیرہ بستی کے نوجوان خود ہی کہتے اور پڑھتے تھے۔یہاں خوش الحان پڑھنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔شاعر حضرات میں اختر میمنوی،اظہر میمنوی اور مصطفیٰ زیدی تیغ مرحومین میں سر فہرست تھے۔آج بھی اظہر حسین صاحب ( مقیم علی گڑھ) شاعرِ اہل بیت کی حیثیت سے ممتاز ہیں۔سوزخوانی و مرثیہ خوانی میں ماہر حضرات میں جناب انتظار حسین مرحوم کا نام سرِ فہرست ہے۔انہیں ایک بے مثال مرثیہ خواں کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔موجودہ وقت میں جنات لیاقت حسین صاحب دور دور تک مشہور ہیں۔

دیوان خانہ اور ڈاکٹر ابن حسین صاحب کے مکان پر میر ضمیر ، میر خلیق، میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے تصنیف کردہ مراثی کی تحت اللفظ ذاکری ہوتی تھی۔بقیہ امام باڑوں میں حدیث خوانی ہوتی تھی ۔معروف تحت اللفظ ذاکرین میں جناب علی اختر ، جناب اختر عباس اور انصار رضا مرحومین کے نام قابل ذکر ہیں۔حدیث خوانی میں انصاری بزرگ جناب میاں جی مرحوم منفرد مقام رکھتے تھے۔

عشرۂ محرم میں پہلا جلوس 8 محرم کو احاطے سے نکلتا، ذوالجناح سج کر پوری بستی کا گشت ختم کرتا۔یہ جلوس دیوان خانہ پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔دوسرا یومِ عاشورہ دیوان خانہ سے شروع ہو کر پوری بستی کے گشت کے بعد حوض پر پہنچ کر ختم ہوتا تھا۔ان دونوں جلوسوں کی شان قابل دید تھی ایسا پر غم اور تاثیر ماحول اور بستیوں کے جلوس میں شاید ہی نظر آتا ہو۔

موجودہ دور میںوقت اور حالات کی تبدیلی اور پرانے لوگوں کے اب موجود نہ ہونے کی وجہ سے عزاداری کے انداز اور مجالس کی تعداد اور اوقات میں کافی تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں اور کثیر تعداد میں امام باڑے بھی تعمیر ہوگئے ہیں۔آج ماشاء اللہ میمن سادات میں تقریباََ پندرہ امام باڑے موجود ہیں جن میں سے کچھ کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔جیسے چھتہ، دیوان خانہ ، بنگلہ اور کوٹھی وغیرہ ۔ان کے علاوہ ایک امام باڑہ املی والا کے نام سے مشہور ہے۔پہلے اس کی عمارت کچی تھی لیکن 2004میں اس کی عمارت پکی بنوائی گئی ہے۔عاشورہ کے دن ذوالجناح اسی امام باڑے سے برآمد ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مجنوں شاہ کا امام باڑہ جگنی کا امام باڑہ ،آمرو کا امام باڑہ، نوریدیوں کا امام باڑہ، امام باڑہ اہل بیت ،نیا امام باڑہ،اصغریہ امام باڑہ، زینبیہ ، ڈاکٹر صاحب کا امام باڑہ اور ماما کا امام باڑہ وغیرہ ہیں۔

نوردیوں کا امام باڑہ 1959ء میں تعمیر ہوا تھا۔انصاری برادری نے 1967ء میں نیا امام باڑہ اور 2000ء میں امام باڑہ اہل بیت بنوایا۔ 1980ء میں زینبیہ تعمیر ہوا جو کہ اصل میں لڑکیوں کا مدرسہ ہے۔جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے۔لیکن وہاں محرم اور اس کے علاوہ بھی زنانی مجلسیں کی جاتی ہیں۔

میمن سادات میں عزاداری شروع ہی سے ہوتی رہی ہے۔شروع میں یہاں پر عاشورہ کے دن الائودہکائے جاتے تھے اور اس کے چاروں طرف ماتم ہوتا تھا۔باقاعدہ نوحے نہیں پڑھے جاتے تھے۔مرثیے بھی فارسی اور عربی میں ہی پڑھے جاتے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں۔دیوان خانہ بننے کے ساتھ جلوس برآمد ہونا شروع ہوئے۔جلوس میں ایک بڑا حلقہ بنا کر تاشوں اور نقاروں کے ساتھ ماتم ہوتا تھا۔نوحے صرف امام باڑوں میں پڑھنے جاتے تھے۔

بعد میں عزاداری کا انداز کچھ بدلا، جب میمن کے کچھ لوگ جو لکھنو اپنی تعلیم کے سلسلہ میں گئے تھے۔وہاں انہوں نے محرم دیکھا۔ واپس آکر انہوں نے انجمن حسینیہ بنائی۔ان میں سید ظفر یاب عباس اور سید اختر رضا کے نام قابل ذکر ہیں۔اسی زمانے سے یعنی 1931ء سے شبیہ ذوالجناح برآمد ہونے کی روایت قائم ہوئی۔

ذوالجناح میں جو نوحہ پڑھا جاتا ہے وہ یہ ہے :

جو نہر پہ پیاسا سوتا ہے
یہ اس کی سواری

محرم میں کی شروعات چاند رات سے ہی ہوجاتی ہے۔نماز عشاء کے بعد دیوان خانہ سے ایک جلوس نکلتا ہے جو سب امام باڑوں میں جاتا ہے۔وہاں یہ نوحہ پڑھاجاتا ہے:

پھر چاند محرم کا نمودار ہوا

آخر میں جب جلوس دیوان خانہ پہنچتا ہے تو مجلس ہوتی ہے۔دیوان خانہ میں یہ تاریخی مرثیہ ہوتا ہے:

محرم آیا ہے اے محبو رسولؐ روتے ہیں کربلا میں

پہلی محرم سے آٹھ مردانی اور تین زنانی مجلسیں ہوتی ہیں۔محرم کی چار تاریخ کو دیوان خانہ میں حضرت زینبؑ کے بیٹوں سے منسوب یہ تاریخی مرثیہ پڑھا جاتا ہے:

ستاروں کی آمد ہے کالی گھٹا میں

چھ محرم کو نئے امام باڑہ کی مجلس کے بعد شبیہہ تابوت جناب عون و محمد برآمد کیا جاتا ہے۔رات کو دیوان خانہ میں تاریخی مرثیہ ہوتا ہے:

اصحاب جاں نثار رسولؐ خدا کے تھے

سات محرم کو عصر کے بعد آمرو کے امام باڑے میں مجلس کے بعد شبیہہ تابوت ِ جناب قاسم برآمد ہوتا ہے اس کے بعد جلوس برآمد ہوتا ہے جو ماما کے امام باڑے میں ختم ہوتا ہے۔اس دوران سب امام باڑوں سے اور کچھ گھروں سے بھی مندرجہ ذیل تاریخ نوحہ پڑھنے کے بعد مہندی اٹھائی جاتی ہے: نوحہ یہ ہے:

اس کو مجراجو کہتی تھی روکر
مہندی آتی ہے قاسم بنے کی

آٹھ محرم کو صبح سے شام تک کی سب مجلسیں ایک بجے سے پہلے ختم کر دی جاتی ہیں۔اس دن گھروں میں منت کے علم برآمد کئے جاتے ہیںاور بچوں کو جن کی منت ہوتی سقّہ بنایا جاتا ہے۔آٹھ محرم کا جلوس دیوان خانہ میں تاریخی مرثیوں سے شروع ہوتا ہے۔جس میں دو تاریخی مرثیے پڑھے جاتے ہیں:

، کہتی سکینہ یہ تھی اب نہیں رونے کی میں

یہ نوحہ وہاں موجود سب ہی لوگ پڑھتے ہیں۔اس کے بعد جلوس ڈاکٹر صاحب کے امام باڑے کی طرف بڑھتا ہے۔بڑھتے ہوئے یہ نوحہ پڑھا جاتا ہے:

یا سیدی یا عباس

اور اس نوحے پر لوگ سر کا ماتم کرتے ہیں۔پھر جلوس دیوان خانہ پہنچ کر ختم ہوتا ہے اور وہاں مجلس ہوتی ہے۔نو محرم کو نئے امام باڑے میں شبیہہ تابوت حضرت علی اکبرؑ برآمد کیا جاتا ہے۔رات کو دیوان خانہ کی مجلس کے بعد شبیہہ تابوت علی اکبرؑ اور شبیہہ جھولا حضرت علی اصغرؑ برآمد کیا جاتا ہے۔

شب عاشورہ کو اعمال کے بعد تمام انجمنیں امام باڑوں کا گشت کرتی ہیں جہاں ان کے لئے چائے کا اہتمام ہوتا ہے۔فجر کے وقت گشت ختم ہوجاتی ہے۔پھر صبح کو دیوان خانہ ، املی والاامام باڑہ اور کربلا میں اعمال روز عاشورہ ہوتے ہیں۔اس دن سب لوگ فاقہ کرتے ہیں ۔

یوم عاشورہ کا جلوس دیوان خانہ سے شروع ہوتا ہے۔پہلے وہاں دو تاریخی مرثیے پڑھے جاتے ہیں:

۔قتل کی رات کو تھی شام سے گریاں زینبؑ
۔آج زینبؑ یوں کہے بھائی میر ا سرور نہیں

اس کے ساتھ تاریخی ضریح نکالی جاتی ہے۔پھر سب امام باڑو ں اور بعض گھروں سے منّتی ضریحیں نکالی جاتی ہیں اور ہر جگہ یہ مرثیہ پڑھا جاتا ہے:آج زینب یوں کہے۔۔۔۔۔سب تعزیے احاطے کے باہر جمع ہوتے ہیں اور وہاں سے جلوس کی شکل میں آگے بڑھتے ہیں۔راستے میں یہ تاریخی مرثیہ پڑھا جاتا ہے:

جب قافلہ حرم کا چلا سر کھلا ہوا

جب جلوس املی والے امام باڑے پہنچتا ہے وہاں مجلس ہوتی ہے اور یہ مرثیہ پڑھا جاتا ہے:

آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے

ا سکے بعد یہ تاریخی مرثیہ پڑھا جاتا ہے:

حسین جب کہ چلے بعد دوپہر رن کو

مجلس کے بعد شبیہہ ذوالجناح برآمد کیا جاتا ہے اور یہ نوحہ پڑھا جاتا ہے:

گھوڑا نکل رہا ہے شہہ مشرقین کا

اس کے بعد جلوس مجنوں شاہ کے امام باڑے ہوتا ہوا چھتہ پہنچتا ہے۔وہاں پر مجلس ہوتی ہے اور یہ تاریخی مرثیہ پڑھا جاتا ہے۔

روا نہ نہر لبن کو جو شیر خوار ہوا

مجلس کے بعد ایک اور تاریخ مرثیہ پڑھا جاتا ہے

جب ہوئی ظہر تلک قتل سپاہ شبیر

یہ جلوس بڑے امام باڑے کی طرف بڑھتا ہے اور وہاں حوض کے کنارے زنجیروں کا ماتم ہوتا ہے ۔پھر امام باڑوں کی ضریحیں بڑے امام باڑے میں رکھ دی جاتی ہیںاور باقی 35،36 تعزیے ڈولاوالی کربلا جاکر دفنا دئیے جاتے ہیں۔وہاں پر بھی تاریخی نوحہ پڑھا جاتا ہے:

صدا الوداع حسینا

اس کے بعد زیارت عاشورہ پڑھائی جاتی ہے۔پر واپس آکر جگہ جگہ فاقہ شکنی کروائی جاتی ہے۔رات میں سب امام باڑوں میں چھوٹی چھوٹی شامِ غریباں کی مجلسیں ہوتی ہیں پھر بڑی مجلس دیوان خانہ میں ہوتی ہے۔نجلس کے بعد سب لوگ کربلا"ڈولا والی"جاتے ہیں اور وہاں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔کوٹھی اور بنگلہ میں زنانی مجالس میں بھی تاریخی مرثیے اور نوحے ہوتے ہیں اور تاریخ کے حساب سے علم اور تابوت برآمد کیے جاتے ہیں۔

میمن سادات میں ہمیشہ سے ہی بہت اچھے نوحہ خواں اور مرثیہ خوان پیدا ہوتے رہے ہیں جو اپنے زمانے میں بہت مشہور رہے ہیں۔ماضی قریب میں اختر رضا صاحب کےلکھے اور اختر رضا صاحب کے پڑھے ہوئے نوحے بہت مشہور تھے۔

میمن کی عزاداری میں پورا سادات شریک رہتا ہے۔محرم کے دنوں میں میمن سے باہر رہنے والے بھی میمن پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔آٹھ اور دس محرم کے جلوس میں قریب کی آبادیوں کے لوگ بھی شریک ہونے اور زیارت کرنے آتے ہیں۔میمن کے اہل سنت حضرات اور کچھ ہندو بھی اپنے تعزیے جلوس کےساتھ ہی نکالتے ہیں۔یہ یک جہتی کا انداز بہت کم جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔