پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

بت شکن

بت شکن خوش ہے کہ دو ہاتھ میں بُت توڑدیئے بت شکن کاش سمجھتا کہ وہ بت ساز بھی ہے اب جو بت اس تراشے ہیں وہ پتھر کے نہیں ان میں ادراک بھی رفتار بھی آواز بھی ہے حرم پاک میں خود چار شریعت کے امام صدیوں سے اپنے مصلّوں پہ ڈٹے بیٹھے ہیں لاکھوں ان کے مقلّد ہیں جو طوطوں کی طرح ان کی تصنیف کا ہر لفظ رٹے بیٹھے ہیں نئے بت خانے میں اب قوتِ تخلیق بھی ہے بڑے بت شان سے چھوٹوں کو جنم دیتے ہیں سب کا میںذکر کروں گا تو طوالت ہوگی امت احمد مرسل کو خجالت ہوگی چمن پاک میں اللہ تو کم پجتا ہے ڈھول کی تھاپ پہ پیروں کا علم پجتا ہے مئے وحدت کی کوئی بوند رسیلی نہ رہی آذری رہ گئی دنیا میں،خلیلی نہ رہی جو گزرنی تھی،وہ دین اور دھرم پر گزری دیر پر وہ نہیں گزری جو حرم پر گزری شمر اب بھی ہیں، یزید اب بھی ہیں،خنجر اب بھی حرم پاک ہیں بے مقنع و چادر اب بھی کبھی برپا ہو اگر معرکۂ باطل و حق اربوں انسانوں میں نکلیں گے بہتر اب بھی لاکھوں بو جہل ہیں دھارے ہوئے اسلام کا روپ پہلے تنہا تھا تو تنہا ہے پیمبر اب بھی قوتِ حیدر کرار کہاں سے آئے ورنہ ہر گام پہ ہیں مرحب و انتر اب بھی وطن و قوم کے بت،کذب و ریا کے بت ہیں نسل اور رنگ کے بت،حرص و ہوا کے بت ہیں فرقہ وارانہ تعصب کی وبا کے بت ہیں اے خدا تیری خدائی میں بلا کے بت ہیں

پروفیسر اخترؔ رضا زیدی