پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

نظم  (کسان کا گیت)

وہ چشمِ شاہِ خاور کھل رہی ہے سیاہی میں سفیدی گھل رہی ہے جبینِ شب سے افشاں دھل رہی ہے وہ کلیوںپر تبسّم آرہا ہے کسان اک مست بیٹھا گا رہا ہے

فضا کے ساز کا ہر تار خاموش طیورو مرغ و مورمار خاموش ہوائیں دم بخود اشجار خاموش خموشی میں ترنّم پا رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گا رہا ہے

فضا ٹھٹرا رہی ہےایسی سردی ہوائوں میں بھی جیسے برف بھر دی یہ سردی اور یہ سحرانوازی جوانی کو سبق سکھلارہا ہے کسان اک مست بیٹھا گا رہا ہے

بچھی ہے سبزےپر پالے کی چادر ہوا میں برف اُڑتی ہے سراسر جما جاتا ہے خوں جسموں کے اندر کہر یخ کے دھویں برسا رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گا رہا ہے

چھپا سورج سُحابی آسماں میں پرندے پر سمیٹے آشیاں میں گلوں کا رنگ فق ہے گلستاں میں ٹھٹر کر ہر شجر مُرجھا رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

نہ موزے ہے نہ دستانےنہ چسٹر برہنہ تن برہنہ پا کھلے سر وہ گرمی روح کی اللہ اکبر کہ اُس پر بھی پسینہ آرہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

کسے کہتے ہیں جاڑاکیسی سردی نظر  میں لغو ہے کشمیر گردی بس اسکی کھال ہے فِطرت کی وردی وہ مصنوعات کو ٹُھکرارہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

وہ نرمی کو نہیں پہنچانتا ہے وہ سبزے ہی کو مخمل جانتا ہے وہ نیچر کو گھر اپنا مانتا ہے جو موراک رقص کرتاجا رہاہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

ترانا جو ہوا کو مست کردے ہوا کیا ہے فضا کو مست کردے لہن لطفِ خدا کو مست کردے کہ خود ابر کرم مستا رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

چلم مٹھی میں پکڑے میلی میلی کمر سے کھینچی تمباکو کی تھیلی وہ پھونکا وہ چلم میں آگ پھیلی وہ موچھوں پردھواں بل کھارہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

نگاہوں میں بسا کھیتوں کا منظر ہری وردی میں قد سب کے برابر کھڑا ہو جسیے اسٹیلن کا لشکر وہ قاعد بن کےخوداترا رہاہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

لہو کے رنگ سے آنکھیں پیازیؔ جو تیور غزنویؔ صورت ایازیؔ سکندؔر دھن میں ہے حکمت میں رازیؔ عمل سے عِلم کو شرما رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

فقیری کا وہ عالمگیر ہادی ہمایوں بختی اس گھر کی خو زادی ہزاروں کو  جہاں گیری کرادی مگر خود تاج کو ٹُھکرا رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

ہرے کھیتوں یہ اسکو سمجھنا زمیں سے اگتا ہے اک ایک دانہ لئے مٹّی میں قاروں کا خزانہ وہ بادل رحمتوں کا چھا رہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

بڑی باتیں ہیں لیکن ذات چھوٹی شہنشاہوں کو جودیتا ہے روٹی پہنتا ہے وہ خود میلی لنگوٹی سبق ایثار کے سکھلارہا ہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

دنوں کو محنتوں کے بیج بونا شبوں میں ہر تھکن ہر غم کو کھونا مبارک چین سے بے فکر سونا نظرخوابوں میں بھی یہ آ رہاہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

مرا دل آج کیوں اس طرح روتا کسانی دل جو اس پہلو میں ہوتا ترانے گاتا میٹھی نیند سوتا دلِ اخترؔ یہاں للچا رہاہے کسان اک مست بیٹھا گارہا ہے

پروفیسر اخترؔ رضا زیدی
لھکنئو 1934