پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

میمن سادات

نوٹ: نتھو صاحب جن کا دوسرا نام صادق حسین بھی ہے انار کلی میں مل گئے جہاں میں آقا حسین صاحب کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ہیّت وحالات اتنےبدلے ہوئے نظر آئے کے پہچاننے میں آقا حسین صاحب کی مدد لینی پڑی۔ یہ نظم اسی واقعے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔

divider

سیّد اخترؔ رضا زیدی

کون؟ تم؟ نتھو؟ اور انار کلی کوٹ؟ پتلون؟  ٹائی؟ پان؟ ڈلی؟ خوش تو ہو؟ کیوں نہ غنچہ دل کا کھلے آج چودہ برس کے بعد ملے کیا کہا؟ بٹلروں کے افسر ہو؟ کسی ہوٹل میں تم منیجر ہو؟؟؟ میاں تنخواہ کتنی پاتے ہو؟ چار سو۔ پانسو کماتے ہو ؟؟ اور وطن سے بھلا کب آئے تھے؟ پہلے سے تم بسے بسائے تھے؟ آہ نشتر چلا دیا تم نے یاد کیا کیا دلا دیا تم نے ہائے میمن کی وہ نفیس فضا بڑی مونس۔ بڑی انیس فضا میرے بچپن کے ساز کی محرم ہر جوانی کے راز کی محرم نقشِ سیرت سنوارنے والی مجھ کو اِتنا اُبھارنے والی مژدئہ عیش کی پیامی تھی سینہ میں دل تڑپ ہی جاتا ہے رات کو جب دماغ سوتا ہے دل کو محسوس ایسا ہوتا ہے نغموں کو ساز دے رہی ہے تو مجھ کو آواز دے رہی ہے تو ہائے ساون کی ہلکی ہلکی پھوار فصلِ انبہ میں کوئلوں کی پکار سرخ اُفق پر ہمالیہ پھیلا نجد میں جیسے "ناقہء لیلیٰ" ابر کے ٹکڑے وہ گلابی سے جھومتے جھومتے شرابی سے آسماں پر وہ سات رنگی دھنک پنگٹھوں پر وہ پائلوں کی جھنک آئے بارش کے قطرے یوں آئے جیسے شیریں ستار پر گائے بن گئی سب زمین پانی کی گھاس میں رُت بھری جوانی کی چاندی محلوں پہ پھیرتی بارش سچےّ موتی بکھیرتی بارش مینہ تھما، مہر نکلا ہالے سے جیسے جھانکے دلہن دوشالے سے دھل کے شفاف ہو گئیں گلیاں آئینہ باف ہوگئیں گلیاں غسل کر کے ہمالہ صاف ہوا کوہ کیوں کہئے، کوہِ قاف ہوا زندگی آگئی مکانوں میں بھیڑ پھر لگ گئی دکانوں میں دال لی، چھالیہ کا بھائو لیا پیسے کا گڑ لیا، لبھائو لیا بوڑھے، بچے، رواں دواں نکلے ہوا خوری کو نوجواں نکلے باغ میں قافلے اُتر آئے آم کے ٹوکرے نظر آئے چھتے والے میں اک تماشہ ہے ککڑی امرود یا بتاشہ ہے آم تو آم ڈالیاں کھالیں بابا رجَن کی گالیاں کھالیں یوں نہ کھاتے تو کب کِھلاتے وہ؟ کوّے سے آم چھین لاتے ہو چلو گل شکرو ناریل کھالو پیڑ پر چڑھ کے جامنیں کھالو آم تو کھائے، پکّے یا کچّے پکڑے کھو کر سے طوطے کے بچّے اگلے دن مدرسے میں یوں آئے جیسے قصاّب گائے کو لائے کوئی بچہ اگر ذرا چُرغا! منشی کلّن نے کر دیا مرُغا بھیگی قمچی جو اک لگائی ہے "منشی جی مرگیا"۔ دُھائی ہے منشی ایسوں کو کیا پڑھا کے کرے "منشی جی مرگیا"،۔ وہ خود نہ مرے بام پر اپنے ہم سنوں کا ہجوم وہ لطیفے، وہ شوخیاں، وہ دھوم تائے بابا کی نیچے سے وہ پکار بھاری بھر کم سی گالیاں دو چار غصہ میں رخ کیا اگر چھت کا نکلا پیشاب چچا شوکت کا ہم تو ہتھنی میں چھپ کے بیٹھ رہے چچا ایسے پٹے کہ کون کہے؟ وہ گئے پھر وہی شرارت تھی کوٹھے پر ہم نہ تھے قیامت تھی دل لبھاتے تھے چہچہے اپنے دور جاتے تھے قہقہے اپنے وہ محرم کی دھوم دھام نہ پوچھ مجلسوں کا وہ اہتمام نہ پوچھ حشر ماتم کا شور تاشوں کا اور تبرک وہی بتاشوں کا ہائے تاریخی مرثیے کا اُٹھائو جیسے طوفاں میں ندیوں کا بہائو وہ چچا انتظاؔر کی چوکی اک پولیس تھانیدار کی چوکی دھن بھی ایسی جگر سے پیپ اُٹھے ساری بستی ملے تو ٹیپ اُٹھے مرثیہ ایسا پڑھ دیا اک دن جس میں سو گز سے کم نہ تھا کوئی جن بازو چوکی پہ جان کھوتے تھے بچے ڈر ڈر کے نیچے روتے تھے چچا شوکتؔ کے آگے گیا ٹہریں کوثر و سلسبیل کی لہریں بھیرویں میں خیال گاتے تھے بازو سارنگی سی بجاتے تھے ہر ادا پر سلام کرتے تھے ہاتھ طبلے کا کام کرتے تھے رونقِِ مجلسِ حسین تھے وہ سوزخوانوں کے تانسین تھے وہ سُنئے اک سوز خوان کے نقشے وہ خداؔ بخش تھے خدا بخشے تخت پر جب بھی وہ طلوع ہوئے "مجرئی صبح" سے شروع ہوئے راگ پہیم کھرج میں یوں جوڑا اک نیا سُر نکال کر چھوڑا بازو خود اپنا راگ گاتے تھے وہ الگ بانسری بجاتے تھے آنکھ اُبل آئی منہ میں جھاگ آئے ایسے میں دم اگر نکل جائے عرشِ اعظم پہ ہو مقام اُن کا پھر فرشتے سُنیں کلام اُن کا اور وہ حضرتِ غلام بنی کون سمجھے گا راگنی اُن کی اُنکے تیور سے دھن بھی ڈرتی ہے بھینس گویا ُجگالی کرتی ہے قابلِِ اعتماد ہیں یہ لوگ راسخ العتقاد ہیں یہ لوگ پاک باطن، خلوص والے ہیں حُبِ آلِ علیؑ کے پالے ہیں کربلا میں کہیں جو ہوتے یہ ابنِ حیدرؑ پہ جان کھوتے یہ وہ مراثی شفیعؔ و اخترؔ کے وہ زبانِ انیسؔ کے چرکے مونس و عشق کی منا جاتیں روز مرہ محاورے، باتیں آبِ زر سے دُھلے ہوئے الفاظ موتیوں سے تُلے ہوئے الفاظ وہ فصاحت کی بیکراں لہریں خُلد میں جیسے دودھ کی نہریں استعاروں کی ان گنت فوجیں کوثر و سلسبیل کی موجیں چُست، تیھکے کسے ہوئے فقرے عطرِ گل میں بسے ہوئے فقرے قدرت ایسی زباں پہ پائی تھی اُن کی الفاظ پر خدائی تھی ہاں یہ پیدا ہوئے برائے سخن تا قیامت ہیں یہ خدائے سخن جو بھی تہذیب اور سلیقہ ہے ہم نے اِن مرثیوں سے سیکھا ہے مرثیے ممبروں سے سُن سُن کر پوری تاریخ ہو گئی اَزبر علم کا غنچہ ان سے کھلتا ہے مجلسی علم ان سے ملتا ہے دل کی دنیا سنوارتے ہیں یہ نقشِ مذہب اُبھارتے ہیں یہ دل کی دنیا سنوارتے ہیں یہ نقشِ مذہب اُبھارتے ہیں یہ ان سے اصلاح طبع پاتی ہے اِن سے اردو زبان آتی ہے مرثیوں کا وہ رنگ لاثانی اُن کے پڑھنے کا ڈھنگ لاثانی اُن کے لہجے میں ایسا سوز و گداز جیسے روحِ حسینؑ دے آواز روح پر تیر مارتے ہیں یہ دل میں مضموں اُتارتے ہیں یہ مے حُبِ علیؑ سے چور ہیں یہ مرثیے برقِ کوہِ طور ہیں یہ خود وہ بیساختہ جو روتے ہیں اہلِ مجلس بھی جان کھوتے ہیں تائے اللہ جلائے سے بڑھ کر کوئی ذاکر نہ آیا ممبر پر ان کے چہرے کا نور کیا کہنا ذاکری کا سرور کیا کہنا صاف ستھرے دُھلے ہوئے فقرے ناپے، پرکھے، تُلے ہوئے فقرے اُنکی صورت سے رعب طاری تھا اُن کا ہر لفظ ضربِ کاری تھا ان سے پڑھنے کا ڈھنگ آتا تھا ساری مجلس پہ رنگ آتا تھا رعب آنکھوں سے ایسا جھڑتا تھا مارے ڈنڈوں کے رونا پڑتا تھا ضد جو آئی تو اڑ گئے اکثر پڑھتے پڑھتے بگڑ گئے اکثر بس جلاہوں کی آفت آ پہنچی اُن کے سر پر قیامت آ پہنچی گالی دے کر "درود پڑھو" پیچھے کیوں بیٹھتے ہو آگے بڑھو وہ بچارے درود پڑھتے رہے پھر بھی یہ اُنکے سر پہ چڑھتے رہے گالیاں پھر سُنائیں نام بنام کہا نکلو، تمہارا یاں کیا کام خود بٹھاتے تھے، خود اُٹھاتے تھے خوب ڈنڈ بیٹھکیں کراتے تھے اُن کے پڑھنے کی تھی کچھ ایسی لگن گالیاں کھا کے بھی جلاہے مگن کوئی سویا اگر، پکارتے تھے گر نہ جاگا تو لات مارتے تھے بات تھی وزن میں پہاڑ اُن کی بابا اچھو سے چھیڑ چھاڑ اُن کی جب بھی محفل میں بیٹھ جاتے تھے پھول ہنستے تھے گل کھلاتے تھے گالیوں میں محبتوں کے پیام کس بشاشت سے گل بہار کا نام جب ذرا کچھ عتاب ہوتا تھا گُلو کہہ کر خطاب ہوتا تھا اُٹھتے گالی تھی بیٹھتے گالی گالیاں پھول اور یہ مالی مقبروں تک قبور تک پہنچیں گالیاں اُن کی دور تک پہنچیں زندگی اور کچھ اگر پاتے گالیوں کی لغت بنا جاتے اور مبشّرؔ حسین کی وہ دُعا جس کو برسات میں بھی ہم نے سُنا یا الہیٰ نزول کر باراں! بہ علیِؑء ولی شہِ مرداں اور وہ اک حکیم صاحب تھے دُھن میں حاضر تھے، سُر میں غائب تھے اُن کی آواز کا وہ اُونچ وہ نیچ آخری فقرہ " اک پہاڑ کے بیچ" جبکہ شادی کی دھوم ہوتی ہو بستی شاید ہی شب کو سوتی ہو رات بھر ناچ رنگ کی باتیں صلح کی باتیں، جنگ کی باتیں گھر میں ڈھولک تو یوں کھڑکتی تھی مُردوں کی روح بھی پھڑکتی تھی سوندھی سوندھی تنور کی روٹی دیگ کا لال شوربہ بوٹی شوربہ میمنی پیالوں میں بٹتے پھرتے تھے نان تھالوں میں کھانے والے ڈکار لیتے تھے پیٹ گویا اُدھار لیتے تھے چچا کلو کا دیگ پر قدغن پیڑے کے نیچے ہڈونکا روغن وقتِ رخصت دلہن کے گھر کی  بہار پھلچھڑی، سہرا، ماہتاب، انار کبھی باغ و بہار تھی میمن ہاں! بڑی طرح دار تھی میمن فنِِ تقریر کے ذخائر تھے بھائی گیندو تھے چچا زائر تھے اور بھیّا گھسیٹا کی باتیں وہ محبت سے پُر ملاقاتیں شادی کی دھن میں گیت گاتے تھے منہہ سے طبلہ بھی خود بجاتے تھے رنج و غم کی گرہ نہ کیوں کھولیں چچا کلبی کے باغ کی بیلیں گونگاؔ اہلِ زباں کو مات کرے کوئی فنکار ہو تو بات کرے اور علیؔ نذر کی وہ مقبولی نام اُس کا کِسان کی سُولی ان کی ہیبت سے سبز باغ جلے اُن کے تالاب میں چراغ جلے کاشتکاروں سے دین کی باتیں اُن سے پوچھو زمین کی باتیں کیمیا ہے تو کاشتکاری ہے اس میں چوری نہیں چماری ہے اخترؔ عباس وہ پُرانا رفیق میرا بچپن کا دوست اور شفیق ساتھ اٹھتے تھے ساتھ سوتے تھے خواب میں دونوں ساتھ ہوتے تھے چوری بھی ساتھ ہیرا پھیری بھی ناک اس کی چھدی تو میری بھی قد و قامت میں گو یہ پدّی تھے ہاں مگر بچپنے سے ضدّی تھے پھول تھے باغ تھے بہار تھے ہم رنگ رلیوں کے تاجدار تھے ہم راہوں کو اپنی سمت موڑ لیا زندگی کا عرق نچوڑ لیا ہم نے منزل پہ جا کے سانس لیا ساری بستی کو ساتھ ساتھ لیا بستی میں انقلاب لائے ہم پا کے منزل کو مسکرائے ہم سر میں سودا تھا بس لڑائی کا کہیں موقع ملے پٹائی کا در و دیوار سے فضول اڑیں اور محرم میں بالخصوص لڑیں یوں تو جنگیں یہ بیشمار لڑے ایک دن آگ ہی میں کود پڑے غالباََ آٹھ تھی محرم کی دی جلاہوں کو جنگ کی دھمکی وہ تو ٹھہرے جلاہے اڑ بیٹھے یہ بھی تیار تھے، جھگڑ بیٹھے قافیہ اُن کا تنگ کر ڈالا فوراََ اعلانِ جنگ کر ڈالا اخترؔ عباس نام پایا تھا گو حریف اُن کا اک جلاہا تھا یہ تو تھے اپنے نام پر مغرور اور جلاہے بھی عقل سے معذور جب بڑھی حد سے گرمئی گفتار کھینچ لی ذوالجناح سے اک تلوار تیغ بھی اک مہابلی کی تیغ یعنی سید نجفؔ علی کی تیغ جو کہ میداں میں کم نکلتی تھی صرف دُلدل پہ سج کے چلتی تھی فاتحِ تسہ کی جو تیغ چلی بس جلاہوں کو بھاگتے ہی بنی شیر پیدل لڑا سوار نہ تھا کیونکہ دُلدل پہ اختیار نہ تھا پسِ پردہ چچی کی تقریر بس مرے لال، روک لو شمشیر رحم کا حکم دو نگاہوں کو بستی میں رہنے دو جلاہوں کو اب تو تم اپنے دل کو صاف کرو بہرِ حق بخش دو معاف کرو یہ بھلا کب سنیں کسی کی پکار آج علمدار ٹھہرے نمبردار جنگ اُلّو بنا کے جیت گئے تیغ الٹی چلا کے جیت گئے پیچھے یہ اور جلاہے تھے آگے اس تعقب میں باغ تک بھاگے باغ سے آگے یہ بھی جا نہ سکے جھاڑ تھے چوکڑی لگا نہ سکے

divider

نظم کا سنجیدہ حصہ

زندگی گزری مسکراتی ہوئی مر مریں سیڑھیاں بناتی ہوئی ناچتی گاتی گنگناتی ہوئی خواہشوں کے دیئے جلاتی ہوئی شہسواروں کو زیر کرتی ہوئی پیدا راہوں میں پھیر کرتی ہوئی نقشِ ہستی بگاڑتی گزری آشیانے اُجاڑتی گزری شاطرِ زندگی کو مات ہوئی چاندنی رات اندھیری رات ہوئی تارے آنکھوں کا نور کھو بیٹھے میکش اپنا سرور کھو بیٹھے قصر و ایوان تھر تھرانے لگے اونچے مینار سر جھکانے لگے گنبدوں نے کلس اُتار دئے تاجداروں نے تاج ہار دیئے عیش و عشرت کا رنگ و راگ گیا سوتے سوتے کسان جاگ گیا درِ دولت سے دھوپ ڈھلنے لگی شمع اب جھونپڑوں میں جلنے لگی رنگ نکھرا جو جانداروں کا زرد منہہ ہوگیا بہاروں کا گونجی الّو کی محل پر آواز بلبلوں نے چمن سے کی پرواز دستِ گلچیں کی زد میں آنے لگے پھول پتوں میں منہہ چھپانے لگے پر سمیٹے طیور بیٹھے تھے شاخ پر غم سے چور بیٹھے تھے میں نے طوفاں کو دور سے دیکھا ایک بجلی کو طور سے دیکھا اُٹھ کے فوراََ رواں دواں نکلا کیا بتائوں کہاں کہاں نکلا میرے چاروں طرف اندھیرا تھا سو بلائوں نے مجھ کو گھیرا تھا وہ مصائب کے تیز رو دھارے آسماں سے برستے انگارے کسرِ ظلمات شور کرتا ہوا شیر سینہ پہ پائوں دھرتا ہوا واہمہ کے نقوش اُبھرتے ہوئے بھوت ہوائوں میں رقص کرتے ہوئے اس طرف کیسے جائوں! اژدر ہے اس طرف آگ کا سمندر ہے راہ مجھ کو مگر بنانا ہے جانا ہے اور ضرور جانا ہے قصرِ آہن کو توڑتا نکلا ہر بلا کو جھنجھوڑتا نکلا بڑا صبر آزما تھا استقلال راہِ دشوار اور فرار محال راستہ کس سے پوچھوں؟ کور تھے سب راہبر بھی ملے تو چور تھے سب آگے بڑھتا ہوں جان جاتی ہے تھک کے بیٹھوں تو شرم آتی ہے کیسے ٹوٹے طلسم باطل کا کس سے پوچھوں سراغ منزل کا نہ کوئی خاندان سے واقف اور نہ اردو زبان سے واقف دن نیا رُت نئی تو رات نئی واقعہ سخت واردات نئی آسماں دشمن، اور فضا دشمن سانس کس طرح لوں ہوا دشمن یا علیؑ کہہ کے جب چلوں دو گام بولے شیطان ہوگا تو ناکام عقل بولی سنبھال اپنا دل کون کہتا ہے! دور ہے منزل واہمہ کا فطور ہے اختر دیکھ وہ برقِ طور ہے اختر یونہی اپنے قدم بڑھائے جا ہر مصیبت پہ مسکرائے جا میں نے ہمت کو پھر کیا مہمیز قدم اُٹھنے لگے ذرا کچھ تیز پیچھے چھوڑ آیا میں اندھیروں کو آ لیا صبح کے سویروں کو مے پلائے جا اے مرے ساقی راستہ اور ہے ابھی باقی میرے ساتھی بچھڑ گئے لیکن یارب اُن سے بھی تو ملا کسی دن کیسی جنت کو چھوڑ آئے ہم مے بھرے جام توڑ آئے ہم اب غریب الدیار ہیں ہم لوگ سکئہ کم عیار ہیں ہم لوگ