پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

نہیں جاتی کہاں تک عقلِ انسانی نہیں جاتی مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی ہمارے قافلے والوں پہ کیسا انقلاب آیا کسی بھی ہمسفر کی شکل پہچانی نہیں جاتی ترقی کا یہ عالم ہے کہ صحرا ہوگئے گلشن مگر آبادیوں سے پھر بھی ویرانی نہیں جاتی چمن چھوڑا، نشیمن چھٹ گیا اور ہمنوا چھوٹے مگر دل سے ہوائے، زمرمہ خوانی نہیں جاتی مسلمانوں کی اس دنیا میں وہ خطے بھی ملتے ہیں جہاں توحید ہوتی ہے، مگر مانی نہیں جاتی زمانے میں ہر اک شے کی گرانی ہوگئی لیکن ضمیرِ حضرت انساں کی ارزانی نہیںجاتی زمانہ منتظر کسی قیس کا ہے اک زمانے سے کہ زلف لیلیٰ شب کی پریشانی نہیں جاتی یہ کیسا شورِ ماتم ہے، یہ کس کا درد ہے دل میں کہ آنسو خشک ہیں، اور غم کی طغیانی نہیں جاتی زمیں پہ نوحۂ آدم بھی کیا کیا رنگ لایا ہے بنی آدم سے رسمِ مرثیہ خونی نہیں جاتی حسین ابن علی تنہا تھے اُس صحرائے عرفاں میں کہ منطق سے جہاں کی خاک بھی چھانی نہیں جاتی یہ جنگ اور تین دن کی پیاس جذب و عشق کی حد ہے اور اس حد تک نگاہِ فلسفہ دانی نہیں جاتی مزاج اپنا کہ دشمن کو ہمیشہ دوست سمجھے ہیں کبھی دشمن کی صورت ہم سے پہچانی نہیں جاتی نہیں جاتی ہماری حشر سامانی نہیں جاتی کبھی سورج کی خوئے حدت انشانی نہیں جاتی جہاں کے آئینہ خانے میں حیرانی نہیں جاتی اس آئینے میں اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی یہ ملبوسات کی دنیا عجب دلچسپ دنیا ہے لباسِ فاخرہ تن پر ہے، عریانی نہیں جاتی مجھے شکل کا کیا ڈر، بندۂ مشکل کشا ہوں میں وہ ہر مشکل ہوئی آساں، جو بہ آسانی نہیں جاتی بہ ظاہر جیتنے والوں کی قبریں تک نہیں باقی؟؟ جو ہارے، حشر تک ان کی جہاں بانی نہیں جاتی اک ادنیٰ بندۂ حیدر ہوں، میری تمکنت دیکھو ہوا کیسی بھی ہو، خوئے سلیمانی نہیں جاتی انیسؔ و عرؔفی و غاؔلب کا شاید فیض ہے اخترؔ ہمارے نطق سے بوئے سخندانی نہیں جاتی مسلسل ہو رہی ہیں بارشیں، رحمت کے پھولوں کی کمی یہ ہے! ہماری تنگ دامانی نہیں جاتی شہیدانِ جفا کا خون، سر پر یوں مسلط ہے کہ چودہ سو برس گزرے، پشیمانی نہیںجاتی بتایا کربلا والوں نے، سجدہ ایسا ہوتا ہے اب دتک اٹھ کے پھر سجدے سے پیشانی نہیں جاتی یہ مت سمجھو کھڑے تھے تشنہ لب عباس دریا میں وہاں تھے وہ جہاں تک عقلِ انسانی نہیں جاتی

divider

لاکھوں یزید و شمر کے غمخوار دیکھئے ہے کوئی ابنِ حیدرِ کرار دیکھئے ہر ہر گلی میں ہے رسن و دار دیکھئے ہے کون کون حق کا طرفدار دیکھئے کتنوں کی آستینوں میں بت ہیں چھپے ہوئے کتنے گلوں میں اب بھی ہے زنّار دیکھئے دنیا میں کربلا کے مسافر ہزارہا ہو کربلا تو کتنے ہوں تیار،دیکھئے پھر حق کی تشنگی سے جہاں چیخنے لگا ہے مشک والاکوئی علمدار دیکھئے کوفہ نہیں، دمشق نہیں، کربلا نہیں ہیں آج بھی حرم سرِ بازار دیکھئے سنسان ملک مصر تھا جب نہ تھے وہاں ہم آگئے تو گرمئی بازار دیکھئے ساقی سے کہئے جرآتِ میخوار دیکھئے دینے سے پہلے ظرفِ قدح خوار دیکھئے گُل دیکھئے نہ گلشن و گلزار دیکھئے اس باغ میں نوشتۂ دیوار دیکھئے تنگ آچکے ہیں، رہبری سے خضر بھی یہاں اب اور کوئی قافلہ سالار دیکھئے مظلوموں کے مزار پہ ہوتا ہے رت جگا سوئے ہوئے ہیں، تاج کے معمار دیکھئے انساں کے کم نہیں ہیں خریدار دیکھئے کتنے ضمیر ہیں، سرِ دربار دیکھئے طاعت گزار ہی نہیں باقی، تو دور سے کب تک نقوشِ مسجد و مینار دیکھئے جا کہ کوئی محافظِ زندان سے یہ کہے قیدی نکل گئے، در و دیوار دیکھئے اخترؔ یقین ہے کہ سویرا قریب ہے ہیں شام ہی سے صبح کے آثار دیکھئے

divider

خدا نے کیا شرف بخشا در سبط پیمبر کو کہ آ کر آ ستانے پر ملائک نے رکھا سر کو شباب الجنہ جب حسنین ہیں کیا خوف شیعوں کو خدا نے دی ہے کنجی خلد کی شبیر و شبر کو بھلا کیا قوتِ بازو کی اسکے آ زمائش ہو کہ جس نے مہد میں دو انگلیوں سے چیرا ازدر کو نصیری کے خدا کو آ تے دیکھا جبکہ کعبہ نے کھلا در لے لیا آ غوش میں فوراً ہی حیدر کو طہارت کا بھلا کیا زکر کوئی کرسکے اسکی کہ جس نے کردیا ہو پاک خود ا للہ کے گھر کو زبانیں دو یہ جس پر چل گئیں گویا ہوا وہ لا کہ لا صیف آ سماں سے آ یا ہے تیغ دو پیکر کو سوائے دستِ حق اس دستِ شیر حق کو کیا کہئے کہ دو انگشت سے جس نے اکھا ڑا بابِ خیبر کو ہو اشق کعبہ کا در لے لیا حیدر کو یوں اندر کہ معدن گود میں لے جیسے اک پاکیزہ گوہر کو علی کی تیغ نے انتر کو معہ گھوڑے کے دو کر کے کیا جبریل کے پر پہ رقم پھر فتح خیبر کو

چلا شمر لعیں جب تول کر خنجر سوئے حضرت بہ حسرت ہوکے دیکھا شاہ نے قاتل کے خنجر کو لحد میں رکھتےتھےاصغر کو شہ اور کہتے جاتے تھے تجھے سونپا زمین کربلا میں نے اس اصغر کو تڑپ کر رہ گئی بچی ہوا کانوں سے خوں جاری اتارا ظالموں نے کھینچ کر کانوں سے گوہر کو جب آ یا زین خالی گھوڑا بانو رو کے چلّائی کہاں چھوڑ آ یا اسپ با وفا تو میرے شوہر کو گرے جب شہ زمیں پر روکے یہ گھوڑے سے فرمایا سلام آ خری کہنا میرا اے اسپ خواہر کو بندھا زینب کا جب شانہ تو اس دم رو کے چلّائی محبت دار خواہر کے بچالے آ کے خواہر کو چلے جب اکبرِ مہرو بپا یہ شور تھا ہر سو نہ دیکھا جسنے ہو وہ دیکھ لے روئے پیمبر کو گلوئے خشک دکھلایا شہ دیں کو جو اصغر نے زبان خشک منہ میں دیکے بہلا یا گل تر کو مرے سر پر رہیگا جب کہ بارہ چاندوں کا سایہ تو سورج کی تپش کافور ہو جائے کی محشر کو نہ منصب کی تمنہ ہے نہ مال و زر کی خواہش ہے تمنائے غلامیء شہ والا ہے احقر کو ترے دربار میں مقبول ہو مولا سخن میرا شغل ہے رات دن تیری ثنا خوانی کا اخترؔ کو

1928

divider

شہرہ آ فاق ہوں مولا کے ثناء خوانوں میں تذکرہ میرے سخن کا ہے سخن دانوں میں قدر کرتے ہیں میری سارے عزادارِ حسینؑ مئے گل رنگ چلے ساقیا میخانوں میں ہو میرا شیشہء دل حبِ علیؑ سے مخمور بھردے ایسی مئےالفت میرے پیمانوں میں نا خدا کی جو ولادت کی خبر آ پہنونچی سجدہ کرنےلگے بت کعبہ کےبت خانوں میں گل کھلا باغِ امامت کا خدا کے گھر میں بلبلیں شور مچاتی ہیں گلستانوں میں اے بتو سجدہ کرو جائے ادب ہے اس دم اب نصیری کا خدا آ گیا بت خانوں میں ناریوں بھاگو کہ اب نورِ خدا آ پہو نچا نار کا کام نہیں نور کے انسانوں میں دانا جو ہوتا ہے وہ کرتا ہے تقلیدِ امام مسلک تقلید سے باہر رہے نادانوں میں آ یا وہ صاحبِ اسلام کہ جس کے ذریعے روح پھونکی گئی اسلام کے ویرانوں میں مدح شہ تاج و زر و مال ہے اپنا اختر گوشوارے ہیں یہی در نجف کانوں میں

1928

divider

وصف خدا ہے وصف رسالت مآب کا قرآں میں حق نے وصف کہا آنجناب کا میں بندہء حقیر وہ آ قائے بے نظیر ذرہ سے کیسے وصف ہو اک آفتاب کا کارِ علی پہ شبہ خدائی کا ہوتا ہے جو کام ہے خدا کا وہی بوتراب کا یک لاکھ بست و چار ہزار آ ئے انبیاء افضل ہے سب سے جاہ رسالت مآب کا چالیس جا علی ہوئے مہماں تو کیا عجب عالم میں نور رہتا ہے اک آ فتاب کا بولے نبیؐ کہ زورِ یدللہ دیکھ لو حیدرؑ نے پُل بنایا جو خیبر کے باب کا ساقی لکھوں ثنائے علیؑ جھوم جھوم کر گر تو عطا کرے مجھے جام اک شراب کا حسنینؑ اور علیؑ سے دو عالم میں کیا بچا وہ مالکِ بہشت یہ مالک تراب کا دنیا سے اسکو راستہ جنت کا مل گیا جویا یہاں پہ جو ہوا راہِ ثواب کا حرُ نے کہا عمر سے کہ بچ راہِ نار سے اب بھی ہے سیدھا راستہ جنت کے باب کا ہو جس کا باپ مالکِ تسنیم و سلسبیل قطرہ نہ کربلا میں ملے اسکو آ ب کا اکبر کی لاش گھوڑے پہ لائے جو شاہِ دیں اس وقت غیر حال ہوا تھا رباب کا شہ بولے موت طفلی کی اصغر پہ ختم ہے اکبر پہ خاتمہ ہوا مرگِ شباب کا گھوڑوں سے اسکی لاش کو پامال کر دیا راکب تھا جو کہ دوشِ رسالت مآب کا میرے گناہ بخش دے اے خالق ِ کریم نقشہ ہے سامنے مرے روز حساب کا اے روزگار کوئی نہ مونسؔ نہ اب انیس کیا زود رس اثر ہے تیرے انقلاب میں اخترؔ ملے گا اسکا نجف میں تجھے صلہ یاں کیا عیوض ہے اس سخن کے جواب کا

1928