پچھلے صفحے پر جائیں

صفحہ احباب کو بھیجیں

ماں

یہ چند شعر برادر عدؔیل زیدی کی والدہ مرحومہ کی رحلت پر نذر ہیں

جو سراپا ہے محبت اسے ماں کہتے ہیں جس کا ہر پل عبادت اُسے ماں کہتے ہیں

جس کا دل رکھتا ہے خلاقِ دو عالم ہر دم فرض ہے جس کی اطاعت اُسے ماں کہتے ہیں

رات کا چین سکوں دن کا لٹا دیتی ہے جس کی ایسی ہو طبیعت اُسے ماں کہتے ہیں

بے توقع ہی رہا پیار ہمیشہ جس کا! جو نہیں مانگتی خدمت اُسے ماں کہتے ہیں

قومیں پلتی ہیں سدا جس کی گھنی چھائوں میں جو ہے انسان کی عظمت اُسے ماں کہتے ہیں

جس نے تہذیب و تمدن کو پلایا ہے لہو ہے بشر کی بدولت اُسے ماں کہتے ہیں

باپ ہے قہرِ الٰہی کا نمونہ اکثر! اور جو ہے سایۂ رحمت اُسے ماں کہتے ہیں

آمنہ گرچہ ہیں پیغمبرِاسلامؐ کی ماں جو کو ماں کہہ دے رسالت اُسے ماں کہتے ہیں

خاکساری جنھیں آتی نہیں وہ کیا جانیں جس کے قدموں میں ہے جنت اُسے ماں کہتے ہیں

اُمتی سوچ کے جائیں گے حشمؔ محشر میں جو ہے خاتونِ قیامت اُسے ماں کہتے ہیں

مولانا سید احتشام عباس زیدی ۔حشمؔ
30 ستمبر 2006ء ۔ہیوسٹن